مشرق وسطیٰ کا تنازعہ جرمن اسکولوں کے لیے ’اسٹریس ٹیسٹ‘ بن گیا

اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے اور غزہ میں اسرائیل کے جوابی حملوں کے اثرات جرمن میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر جرمن اسکولوں میں۔

مشرق وسطیٰ کا تنازعہ جرمن اسکولوں کے لیے ’سٹریس ٹیسٹ‘ بن گیا
مشرق وسطیٰ کا تنازعہ جرمن اسکولوں کے لیے ’سٹریس ٹیسٹ‘ بن گیا
user

Dw

اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے اور مشرق وسطیٰ کے خطے سے بہت دور جرمن دارالحکومت برلن میں خوشیاں منانے اور بھرپور اظہار یکجہتی کا سماں؟ جی ہاں ایسا ہی تاثر سامنے آ رہا ہے، برلن میں ہونے والے منظور شدہ اور ممنوعہ مظاہروں کی تصاویر اور مناظر سے۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں حماس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی نمایاں ہے۔

استاد اور طالب علم میں جھگڑا

اسرائیل پر حماس کے حملے کے فوراً بعد برلن کے علاقے نوئے کوئلن کے ایک اسکول میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ برلن کے اس علاقے کی کل آبادی تین لاکھ تیس ہزار ہے، جس میں سے نصف باشندے مہاجرین کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے اسکول میں موبائل فون سے بنائی گئی ایک ویڈیو نے ہلچل مچا دی۔ اسرائیل اور حماس کے جھگڑے کے دوران سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں جو دھندلی نظر آتی ہے، ایک استاد اور ایک طالب علم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ پولیس کے مطابق ایک ٹین ایجر طالب علم ایک روز فلسطینی پرچم اور اسکارف کے ساتھ اسکول آیا۔ مذکورہ ویڈیو میں ایک غیر واضح سین میں ایک استاد کو اپنا دایاں بازو اٹھاتے اور اس سے لڑکوں کا مارتے دیکھا گیا۔


اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برلن کے علاقے کروئس برگ کیسامیت دشمنی کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کِیگا (KIgA) سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اور معلم درویش ہزارچی نے ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ استاد کا یہ رویہ مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''غصے کے ساتھ رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے استاد کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے طالب علم سے وضاحت طلب کرتے، اسے تنبیہ کرتے۔‘‘

پیشگی تدارک کے اقدامات کی کمی

سامیت دشمنی کے خلاف سرگرم اس تنظیم KIgA کے چیئرمین درویش ہزارچی کا کہنا ہے کہ انہیں اس امر پر کوئی حیرانی نہیں کہ اب جرمن اسکولوں میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہود دشمنی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خلاف جنگ میں روک تھام بہت ضروری ہے۔ لیکن جرمنی میں اس کی ہمیشہ ہی سے کمی رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''جب پرسکون ماحول یا عام دنوں میں مشرق وسطیٰ کے تنازعے یا یہود دشمن احساسات جیسے موضوعات پر غور نہیں کیا جائے گا، نہ ہی کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی، تو بحرانی صورت حال میں ایسے ہی مسائل سامنے آئیں گے، جن سے نمٹنا مشکل ہو گا اور ایسے تنازعات پر مناسب رد عمل ظاہر کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔‘‘درویش ہزارچی نے اس کے لیے ''فرسٹ ایڈ‘‘ کورس کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا، ''(اس معاملے میں) ابتدائی طبی امداد کا از سر نو بندو بست نہیں کیا گیا۔‘‘


کیا یہودیوں کے اسکول سے کسی کو مدعو کیا جانا چاہیے؟

درویش ہزارچی کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور ان کے جواب میں غزہ پر ہونے والے حملوں کے بعد سے انہیں اور ان کی ٹیم سے بارہا یہ سوال خاص طور سے کیا جا رہا ہے کہ کیا یہودی اسکول سے کسی کو بات چیت کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے؟ ''کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا انہیں ایک منٹ کی علامتی خاموشی اختیار کرنا چاہیے یا انہیں یہودی اسکول سے کسی کو مدعو کرنا چاہیے؟‘‘

سابق ٹیچر ہزارچی جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں، کہتے ہیں، ''ہمارے پاس ہر بات کا جواب نہیں ہے۔‘‘ تاہم ان کا مشورہ ہے، ''پرسکون رہیں اور اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے انہیں تعلیمی لحاظ سے معنی خیز انداز میں استعمال کریں!‘‘


KIgA تنظیم اب اساتذہ اور سماجی کارکنوں کے لیے اضافی مشاورتی پروگرام پیش کر رہی ہے۔ درویش ہزارچی کا کہنا ہے کہ صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر ان کی تنظیم کو 40 سے زیادہ تحریری اطلاعات موصول ہوئیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برلن کے اسکولوں میں غیر یقینی کی صورت حال کتنی زیادہ ہے۔

تاہم یہود دشمنی صرف برلن کے اسکولوں تک، جہاں تارکین وطن کا ایک بڑا تناسب پایا جاتا ہے، محدود مسئلہ نہیں ہے۔ مئی میں جرمن صوبے سیکسنی کے شہر لائپزگ سے دو طالب علموں کے بارے میں ایسی اطلاعات ملی تھیں، جنہوں نے آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کی یادگار کا دورہ کرتے ہوئے وہاں 'ہٹلر سیلوٹ‘ کیا تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف مطالعاتی جائزوں سے جرمنی کے کئی سیاسی کیمپوں میں یہوددشمنی کے احساسات کے اشارے مل رہے ہیں۔


2022 میں امیریکن جیوئش کمیٹی (AJC) نے 'آلنس باخ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموگرافی‘ کی طرف سے کیے گئے مطالعے میں پوری آبادی کے رویوں کا تعین کیا تھا اور سروے کروایا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہود دشمنی صرف سیاسی محاذ پر ہی ایک مسئلہ نہیں، بلکہ معاشرے میں اس کی 'گہری جڑیں‘ پائی جاتی ہیں۔

والدین کا کردار

ایک جرمن ماہر تعلیم کلاؤس زائیفریڈ کا کہنا ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے ان مسائل کے حل کے لیے محض اسکول ہی کافی نہیں ہیں، والدین کو بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر آپ فرینکفرٹ، اشٹٹ گارٹ یا برلن جیسے کسی شہر کو ہی لے لیں، تو وہاں اسکولوں میں 40 فیصد طلبا تارکین وطن کے گھرانوں کے ہوتے ہیں۔ کلاؤس زائیفریڈ کے بقول، ''اس کا مطلب ہے: ہم ایک امیگریشن سوسائٹی میں رہتے ہیں اور ہمیں اس معاملے سے نمٹنا بھی سیکھنا ہوگا۔‘‘


کلاؤس زائیفریڈ کو یقین ہے کہ ہر کسی تک پہنچنا ناممکن ہوگا۔ تاہم ان کی نظر میں اہم بات یہ ہے، ''اسکول والدین کے ساتھ مل کر تعلیمی اور تربیتی شراکت کو یقینی بنائیں۔ اس کے بعد ہی ہم ایسے بچوں اور نوجوانوں کو معاشرے میں ضم کر سکیں گے اور انہیں جرمنی میں ایک متوازی معاشرے میں پروان چڑھنے سے روک سکیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔