علاج کے لیے جرمنی کے سیاحتی سفر میں کمی کا رجحان
بہت سے غیر ملکی بیماری کی صورت میں اپنا علاج یا پھر کاسمیٹک سرجری کروانے کے لیے جرمنی آتے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وبا کے اثرات اور یوکرین کی جنگ دونوں نے جرمنی میں اس صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
جرمنی یورپ کے مشہور طبی سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ہڈیوں کے علاج کے ماہر جرمن آرتھوپیڈک سرجن، ماہرین امراض قلب اور عمومی سرجری کے جرمن ماہرین بین الاقوامی طبی سیاحوں میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
بون رائن زیگ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں میڈیکل ٹورزم ریسرچ یونٹ کی سربراہ مریم آصفی کہتی ہیں، ''کم پائی جانے والی بیماریوں کے مریض بہترین ممکنہ علاج چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ جرمنی آنے پر ہی غور کرتے ہیں۔‘‘
وہ کہتی ہیں، ''جرمنی میں علاج کرانا ایک طرح سے باعث فخر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کرنسی کے استحکام جیسے معاشی اور مالیاتی عوامل بھی غیر ملکیوں کے طبی مقاصد کے لیے جرمنی آنے کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘
طبی سیاحت کی عالمی صنعت
طبی سیاحت برسوں سے بڑھ رہی ہے، جس کی ایک وجہ عالمگیریت کی سوچ کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔ امریکہ، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی طبی سیاحوں کے لیے مقبول ترین مقامات میں شامل ہیں۔ جرمنی بھی ان ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ خاص طور سے صحت کی دیکھ بھال کے مناسب اخراجات کی وجہ سے۔ 2020 ء میں 177 مختلف ممالک سے 65 ہزار سے زیادہ غیر ملکی علاج کے لیے جرمنی آئے۔ ان میں سے زیادہ تر یورپی مہمانوں کا تعلق پولینڈ اور نیدرلینڈز سے تھا جب کہ زیادہ تر غیر یورپی مریض روس، یوکرین اور سعودی عرب سے آئے تھے۔
اگرچہ جرمنی میں طبی دیکھ بھال کے شعبے کو بہترین بین الاقوامی شہرت حاصل ہے لیکن حالیہ برسوں میں غیر ملکی مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ مریم آصفی کہتی ہیں کہ طبی علاج کے لیے جرمنی آنے والے روسی سیاحوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔ 2020 ء میں روسی سیاحتی مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد کی کمی ہوئی تاہم اس کمی کو جزوی طور پر پورا کیا یورپی یونین میں شامل ریاستوں اور عرب ممالک سے علاج کے لیے جرمنی آنے والے سیاحوں نے۔
جرمن ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یونیورسٹی کلینک فرائی برگ، جس میں خاص طور سے یورپی یونین کے باہر سے آنے والے مریضوں کے علاج کے لیے ایک خصوصی یونٹ بھی قائم ہے، میں مریضوں کے داخلے میں واضح کمی دیکھی گئی۔ وبائی امراض سے متعلق سفری پابندیاں بھی اس کی بڑی وجہ بنیں۔ 2020ء میں یونیورسٹی کلینک فرائی برگ میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی مریضوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یوکرین اور روس سے تھا جب کہ 2021 ء میں یہ تعداد گھٹ کر 800 رہ گئی۔ ان افراد میں سے بھی زیادہ تر روسی یا یوکرینی باشندے تھے۔
متعدد جرمن ہسپتالوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ہی طبی سیاحت سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے جرمن شہر ڈسلڈورف میں قائم ایک ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ آمدنی کا یہ سلسلہ اب ہسپتال کے لیے خاص اہمیت کا حامل نہیں رہا۔
اسی طرح کا تاثر برلن کے Vivantes ہسپتال گروپ نے بھی دیا۔ مارچ میں اس گروپ نے اپنا Vivantes انٹرنیشنل میڈیسن یونٹ بند کر دیا، جو خاص طور پر غیر ملکی مریضوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کی وجہ اس کی سروسز کی گرتی ہوئی مانگ بنی۔ اس طبی گروپ کے اراکین کا کہنا تھا کہ یہ یونٹ مالی طور پر قابل عمل نہیں رہا تھا۔
2020ء میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے باہر کے ایک ہزار سے کم مریضوں نے وہاں علاج کرانے کی کوشش کی۔ اس تعداد میں 2016ء سے 2019ء تک سالانہ تقریباً بارہ سو کی کمی واقع ہوئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ جرمنی میں کووڈ انیس کی عالمگیر وبا کے اثرات کے تناظر میں اور یوکرین میں کئی ماہ سے جاری جنگ کے آئندہ بھی جاری رہنے کے پیش منظر میں جرمنی میں طبی سیاحتی شعبہ اقتصادی حوالے سے کب اور کس حد تک بحال ہو سکے گا۔
اس کے باوجود آصفی پرامید ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں طبی سیاحت کی حمایت کرتی ہوں، بشمول جرمنی کی طبی سیاحت کے، خاص طور پر اقتصادی عالمگیریت کے اس دور میں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔