جرمنی کے نوآبادیاتی جرائم پر مبنی پہلی دستاویزی فلم
’میژرز آف مین‘ جرمنی کے نوآبادیاتی جرائم کے موضوع پر بننے والی پہلی جرمن فیچر فلم ہے۔ اس میں نمیبیا کے مقامی قبائل کی جانب سے جرمن نوآبادیاتی حکومت کے خلاف بغاوت سے متعلق پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔
آج سے تقریباً 120 سال قبل جنوب مغربی افریقہ، جسے اب نمیبیا کہا جاتا ہے، جرمن نوآبادی تھا۔ "Der vermessene Mensch" یعنی (Measures of Men) نامی اس فلم میں نمیبیا کے لوگوں پر ہونے والے جرمن نوآبادیاتی مظالم کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار لارس کراؤمے پہلے بھی جرمن تاریخ کے دیگر متنازعہ موضوعات کو اپنی فلموں کا عنوان بنا چکے ہیں۔
کہانی کا پسِ منظر
اس فلم کے ہدایت کار لارس کراؤمے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کے دوران بتایا کہ جب جنوب مغربی افریقہ یعنی کہ نمیبیا میں ہیریرو اور ناما قبائل کے لوگ جرمن نوآبادیاتی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے تو جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان تروتھا نے ان کی بغاوت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھا۔ کراؤمے کا کہنا تھا کہ جنرل تروتھا کے اس اقدام کو تاریخ کی کتابوں میں "بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی" کہا گیا ہے۔
تاریخی حقائق پر مبنی افسانوی کہانی
کراؤمے کےمطابق ان کی فلم افسانوی مگر تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ جس میں الیگزانڈر ہوفمان نامی ایک افسانوی کردار بطور انتھالوجسٹ اس جرمن نوآبادی کے ایک تحقیقی دورے پر نکلتا ہے اور نسل کے موضوع پر کی جانے والی اپنی نام نہاد "تحقیقِ‘‘ کے لیے مردہ انسانوں کی کھوپڑیاں جمع کرنا شروع کرتا ہے۔
اس تجربے کے دوران وہ جرمن پروٹیکشن فورس کے ہاتھوں نمیبیا کے قبائل کی نسل کشی کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ یہ حفاظتی دستے سن 1904 اور سن 1908 کے درمیان نمیبیا کے قبائل ہیریرو اور ناما سے جرمن سلطنت کو محفوظ رکھنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ الیگزانڈر ہوفمان اس کے باوجود نسلی تفریق کی بنیادوں پر کیے جانے والے ان مظالم کو نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ اس کی تحقیق پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں۔
فلم کا پہلا سین
کراؤمے کے مطابق فلم کا پہلا سین دل دہلا دینے والا ایک منظر ہے، جس میں ایک جرمن سائنسدان فریڈرش برلن کی ولہیلم یونیورسٹی، جو اب ہمبولڈ یونیورسٹی کہلاتی ہے، کے ایک لیکچر ہال میں جرمن اور افریقی نسل کے انسانوں کی کھوپڑیوں کی پیمائش کرتے دکھایا گیا ہے۔ ان پیمائشوں کے ذریعے یہ جرمن سائنسدان ایک سوڈو سائنسی، ارتقائی نسلی نظریے کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رے ہیں کہ ایک جرمن کی کھوپڑی قدیمی افریقی باشندے کی کھوپڑی سے بڑی ہے۔ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جرمن افریقی باشندوں کے مقابلے میں "زیادہ ذہین" ہیں۔
فلم کے مرکزی کردار
محقق الیگزینڈر ہوفمان کا کردار لیونارڈ شیچر نے نبھایا ہے۔ ابتدا میں ہوفمان نسلی برتری کے رائج نظریہ کی تردید کرتے ہوئے یہ 'ریس تھیوری' پیش کرنا چاہتے ہیں کہ تمام انسان ایک ہی "نسل" یعنی ہومو سیپینز (Homo Sapiens ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہوفمان کو اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ انحصار ایک ہیریرو خاتون کی باتوں پر کرتےہیں۔ کیزیا کمبازیمبی نامی یہ خاتون فلم کا دوسرا مرکزی کردار ہے، جس کو نمیبیا کی اداکارہ گرلی چارلین جازما نے نبھایا ہے۔
وفمان کو اس عورت سے محبت بھی ہے مگر وہ اسے اپنی اس تحقیق کے لیے ایک مہرے کی طرح استعمال کرتا ہے۔ کراؤمے کے مطابق ابتدا میں محقق کو اپنے مقالے کے لیے فریڈرش ولہیلم یونیورسٹی میں موقع نہیں دیا جاتا اور پھر برسوں بعد، جب جرمن جنوبی مغربی افریقہ میں ہیریرو کی بغاوت سر اٹھاتی ہے تو اسے اپنا کام کرنے کا دوسرا موقع ملتا ہے۔
تحقیق کی غرض سے اب وہ جرمن امپیریل آرمی کے ساتھ نمیبیا کے دورے پر جاتا ہے۔ نمیبیا میں قیام کے دوران وہ برلن ایتھنولوجیکل میوزیم کے لیے سیاسی و عسکری تنازعے میں مرنے والے مقامی افراد کی ہڈیوں کے نمونے اور کھوپڑیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے ویسے ویسے اسے ہیریرو مخالف بنتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس فلم میں اس نوجوان انتھالوجسٹ کی اخلاقی تنزلی دکھائی گئی ہے۔ افریقہ میں نوآبادیاتی سفاکیت کے مشاہدے کے دوران وہ خود بھی اس تباہ کن مشینری کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی تحقیقی اغراض کے لیے مقامی مقبروں کی لوٹ مار اور نوادرات کی چوری شروع کردیتا ہے۔
نقادوں کا نقطہء نظر
کچھ نقادوں نے کراؤمے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم کو متعدد زاویوں کی عکاس ہونا چاہیے تھا اور اس میں ہیریرو اور ناما قبائل کے موقف کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ ان کے خیال میں فلم میں ایک بعد از نو آبادیتی تجزیہ دکھایا جا رہا ہے، جو تاریخ کے بارے میں صرف جرمن نقطہ نظر کو بیان کر رہا ہے۔
لیکن کراؤمے اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر کسی قسم کے ثقافتی تخصیص سے کام نہیں لینا چاہتے تھے۔ بطور جرمن ہدایت کار ان کے نزدیک کہانی کو ہیریرو اور ناما قبیلوں کے نقطہ نظر سے بیان کرنا درست نہیں تھا۔ اس لیے وہ صرف جرمن نقطہ نظر سے ایک ایسے جرمن کردار کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو ایک خاص نظریے کے تحت اپنی تحقیق کرتا ہے۔ اور اس کا یہ عمل ایک طرف سائنسدانوں کے اخلاقی زوال کی نشان دہی جبکہ دوسری طرف جرمن سپرامیسی (برتری) پر ایک سخت تنقید کا پہلو اجاگر کرتا ہے۔
فلم کا حالیہ دور سے ربط
ڈائریکٹر کراؤمے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی یہ فلم جرمنی کے نوآبادیاتی ماضی کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے لیکن یہ آج بھی کئی حوالوں سے صادق آتا ہے، ''جیسا کہ آج بھی افریقہ میں بڑی بڑی جرمن صنعتی کارپوریشنوں کے سائنس دان اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں، جو یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ افریقہ کی معاشی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں جب کہ دراصل وہ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ تاہم درحقیقت اس قسم کا کارپوریٹ کلچر ایک طرح کی جدید غلامی کے تصور کا عکاس ہے۔‘‘
فلم کا مقصد
کراؤمے چاہتے ہیں کہ عوام کو ہر قیمت پر اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے، ''ہم ایک زمانے میں ایسی نوآبادیاتی طاقت تھے، جس نے بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور ماضی میں کیے ان جرائم کوقبول کرنے سے انکار کسی طور سود مند نہیں۔‘‘ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی فلم سے شاید کوئی ایسی تحریک پیدا ہو جس کے تحت نمیبیا کے ساتھ طے کیے گئے زر تلافی کے معاہدوں کو پورا کیا جائے۔
جرمنی نے سن 1884میں نمیبیا پر قبضہ کر لیا تھا اور پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915ء میں شکست سے قبل تک یہ علاقہ جرمنوں کے پاس ہی رہا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔