جنسی زیادتی کی شکار گھریلو خادمہ کا ہانگ کانگ پولیس پر مقدمہ
ہانگ کانگ کی پولیس نے جنسی زیادتی کی شکار ایک خادمہ کے دعوے کو انسانی اسمگلنگ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اب اس خادمہ نے ہانگ کانگ کی پولیس پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
چین کے خصوصی انتظام کے حامل علاقے ہانگ کانگ میں جنسی زیادتی کی شکار ہونے والے خادمہ کا تعلق فلپائن سے ہے۔ اس کو نوکری دینے والے شخص کا تعلق ہانگ کانگ سے ہے۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ اس خادمہ کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہیں کہ نوکری کرنے والی خادماؤں کے ساتھ جنسی زیادتی کا فعل اصل میں انسانی اسمگلنگ سے جڑا ہے۔ خادمہ کی درخواست پر انتظامی افسران کے نرم رویہ اپنانے کے حوالے سے اب عدالتی انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے۔
معاملہ عدالت میں
جنسی زیادتی کی شکار ہونے والی خادمہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے مایوس ہو کر عدالت جا پہنچی اور اس نے اپنا مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو انسانی اسمگلنگ قرار دے کر ملازمت کا جھانسہ دینے والے افراد یا کمپنیوں کو سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ جنسی زیادتی کرنے والے کو بھی سزا سنائی جائے۔
فلپائنی خادمہ کے وکیل نے عدالت میں اپنے دلائل میں بیان کیا کہ فلپائنی خاتون پولیس اور انتظامی افسر کے رویے پر شدید مایوس بھی ہوئی۔ وکیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیا کیا کہ انہوں نے بظاہر ایسا کر کے ملزم برائن اپتھروپ کو سزا سے بچانے کی کوشش کی تھی۔
فردِ جرم عائد
اس خاتون کا نام عدالتی کاغذات میں مخفی رکھا گیا ہے اور اس کو کام دینے والے کا نام برائن اپتھروپ ہے۔ اپتھروپ برطانوی شہری ہے اور وہ اسی کی دہائی سے ہانگ کانگ میں رہائش اختیار کیےہوئے ہے۔
خاتون نے عدالتی درخواست میں واضح کیا کہ اسے سن 2018 اور 2019 میں اپتھروپ تواتر سے جنسی نشانہ بناتا رہا۔ عدالت نے نامزد ملزم برائن اپتھروپ پر فرد جرم عائد کر دی ہے اور اِس مقدمے کا فیصلہ پندرہ جولائی کو سنانے کی تاریخ بھی مقرر کر دی ہے۔
اس عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کمشنر اور محکمہ انصاف کے انچارج سکریٹری کے خلاف عدالتی انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اس انکوائری میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ دونوں افسران برائن اپتھراپ کے خلاف میجسٹریٹ کی عدالت میں کارروائی شروع کرنے میں کیوں دلچسپی رکھتے تھے۔
ہانگ گانگ میں خادمائیں
ہانگ کانگ میں گھریلو خادماؤں کی تعداد تین لاکھ ستر ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق انڈونیشیا اور فلپائن سے ہے۔ ان کے حوالے سے ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان خادماؤں کا تعلق انتہائی غریب خاندانوں سے ہوتا ہے اور وہ گھروں میں کام کر کے اپنے ملکوں میں رہنے والے خاندان کی کفالت کرتی ہیں لیکن ان کو ہانگ کانگ میں شدید مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کارکنوں کا مزید کہنا ہے کہ ان خادماؤں کو ہراساں ماحول کا سامنا ہوتا ہے، کام کے زیادہ اوقات کے علاوہ انہیں جسمانی مارپیٹ اور جنسی زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض انسانی حقوق کے کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں پولیس انسانی اسمگلنگ کے سخت قوانین کے استعمال سے گریز کرتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔