محبت کل اور آج

سینٹ ویلنٹائن کی یاد میں 14 فروری کو محبت کا دن اب تقریباً دنیا کے ہر خطے میں منایا جاتا ہے لیکن محبت کرنے والوں کے لیے ہر دن ویلنٹائن ڈے ہی ہوتا ہے۔

محبت کل اور آج
محبت کل اور آج
user

Dw

تفریحی مقامات میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھ میں ہاتھ لیے، ہنسی مذاق کرتے یا کبھی چلتی موٹرسائیکل یا گاڑی میں سیلفیاں لیتے خوش باش جوڑے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں باہمی رضامندی سے محبت کرنے والوں کو 'بے حیا‘ اور ان کے خوشی کے لمحات کو ''قیامت کی نشانی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب زیادتی اور ریپ جیسے اندوہناک جرائم پر مجرمانہ خاموشی نظر آتی ہے۔

غالباً برطانوی گائیک اور موسیقار جان لینن نے یہ پاکستان جیسے معاشرے کے لیے ہی کہا تھا، '' ہم ایسی دنیا کے باسی ہیں، جہاں محبت چھپ کر اور تشدد دن دہاڑے کیا جاتا ہے‘‘۔ تشدد کا فروغ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب عشق کو ممنوع قرار دیا جائے، محبت جیسے فطری جذبے کو مذہبیت کا چولا پہنایا جائے۔


لیکن محبت پر بند باندھنا ہمیشہ ہی ناممکن رہا ہے۔ جگر مراد آبادی نے بجا ارشاد فرمایا ہے!

محبت کیا ہے تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں

تِرا مجبور کر دینا مِرا مجبور ہو جانا

محبت کیا ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ کس عمر میں ہونی چاہیے ؟ کس سے ہونی چاہیے؟ کتنی قسم کی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ؟ محبت سے متعلق ان سارے سوالات کے جوابات نا آج تک کوئی دے پایا نا ہی دے پائے گا۔ ہر انسان کا محبت کا تجربہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ محبت کا وجود تبھی سے ہے، جب سے انسان وجود میں آیا۔ انسان کئی جذبات سے مزین ذی روح ہے۔


ان جذبات میں محبت سب سے خوبصورت اور طاقتور جذبہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ، جو اس حسین احساس اور جذبے سے روشناس ہوئے۔ محبت ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے، جس میں باگیں آپ کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہیں اور پھر کوئی اصول و ضوابط اور پابندیاں کارگر نہیں رہتی۔

گرمیوں کی تپتی اور لمبی دوپہروں میں سنسان گلیاں محلے کے نوجوان جوڑوں کے ملنے کے لیے جنت کا نمونہ ہی ہوتی تھیں۔ کوئی جوڑے بہت ہی خوش قسمت ہوئے تو کسی ریسٹورنٹ یا سینما ہال چلے جاتے تھے۔ خطوط کے ذریعے ہی ملنے کے دن اور وقت کا تعین کیا جاتا تھا اور کبھی کوئی خط گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتا توایک طوفان برپا ہو جاتا تھا۔


ہم سب نے ان محبت کی اقسام میں سے کسی نا کسی کا کم یا زیادہ تجربہ ضرور کیا ہو گا۔ اگر خالصتاً مرد عورت کی محبت کی بات کی جائے تو کل اور آج کی محبت کی قدروں میں فرق ضرور آیا ہے۔آج سے تقریباً تین چار عشروں قبل تک محبت کرنا اتنا سہل نا تھا۔ محبت کرنے والوں کی رسائی خط وکتابت تک محدود اور محلے کے بچوں کے مر ہون منت ہوا کرتی تھی۔ بچے ہی ڈاکیے کی ڈیوٹی بجا لاتے تھے۔ محلے کی باجیاں اور بھائی بچوں کو ٹافی بسکٹ کا لالچ دے کر پہرداریاں بھی کروایا کرتے تھے۔ اکثر ڈاکیے ہی ’’خطوط لیک‘‘ کے مجرم گردانے جاتے تھے۔

کئی دنوں تک دونوں جانب رونا پیٹنا مچتا تھا۔ ایک ساتھ جینے مرنے کی، جو قسمیں کھائیں تھیں وہ دوہرائی جاتی تھیں لیکن سب بے سود ۔ لڑکیوں کو ان کے ناکردہ جرم کی پاداش میں فوری شادی کی سزا سنا دی جاتی تھی اور وہ چپ چاپ سر جھکائے اپنے خاندان کی عزت کی خاطر اپنی ناکام محبت کی یادیں اپنے سینے میں چھپائے اپنی شادی کو کامیاب بنانے کے مشن میں جُت جاتی تھیں۔


لڑکے بھی بالآخر اپنے والدین کی پسند کو اپنانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ راہیں جدا ہونے کے باوجود محبت میں گزارے وقت کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی تھی۔ گو کہ اس وقت معاشرہ اتنا رجعت پسند نہ تھا لیکن محبت کرنے والوں کو آج کی مانند وہ سہولیات اور ذرائع میسرنہ ہونے کی بنا پر کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں میں شعور اور تعلیم کی کمی کے باعث اپنے حقوق سے شناسائی بھی نا ہونے کے برابر تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ''لو میرج‘‘ خال خال ہی ہوا کرتی تھیں۔

اس سے قطع نظر کہ آپ اپنی محبت کو پانے سے محروم رہیں لیکن اہم یہ ہے کہ اس حسین احساس کی لذت سے توآشنا ہوئے، جو کم ہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔ محبت میں تشنگی کا عنصر ہی اس جذبے کے زندہ ہونے کا ثبوت اور دلیل ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے چاہے سالوں نہ ملیں لیکن اس جذبے کا احساس ہمیشہ دل میں تروتازہ رہتا ہے۔


محبت دو افراد کے درمیان ایک ایسی کیمسٹری کا نام ہے، جو تیسرا فرد کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یونانی فلسفہ میں محبت کو کئی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن چھ بہت نمایاں اور اہم ہیں۔

ایروز: پرجوش رومانی محبت، فیلیا: دوستانہ پیار، اسٹور گے: والدین کی بچوں اور بچوں کی والدین سے محبت، آگاپے: بے لوث محبت، لوڈس: دل پھینک محبت، پریگما: دیرپا محبت،فیلوٹیا: خود سے محبت ( خود پسندی)


کل اور آج کی محبت کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اب محبت پر نئی ٹیکنالوجی کا سایہ پڑ گیا ہے۔ خطوط کی جگہ سوشل میڈیا کی مختلف ایپس نے لے لی ہے۔ ایسی کئی ڈیٹنگ ایپس اور ویب سائٹس موجود ہیں، جو دو لوگوں کو ملانے کا باعث بنتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے تعلقات کو محبت کا درجہ دیا جا سکتا ہے یا یہ وقتی کشش کہلائے گی؟

لحاظہ ایسی ماڈرن محبت کا آغاز و انجام بھی فیس بک، انسٹاگرام یا واٹس ایپ پر ہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ اس لیے آج کل پوسٹ اور اسٹیٹس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کب محبت کی پیینگیں اڑائی جا رہی ہیں اور کب جنگ کا میدان گرم ہے۔


محبت کے خاتمے کا برملا اظہار فریقین کا ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر بلاک کر کے ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان رشتوں میں بیشتر فریق ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے اختیار کرتے ہیں، جو خاص طور سے لڑکی کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔اب فخریہ طور پر محبت بھرے پیغامات و تصاویر کے اسکرین شاٹس کو وائرل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے محبت پر سے ایمان ہی اٹھتا جا رہا ہے۔ لیکن ہر دور کی طرح آج بھی ایسے محبت کرنے والے ہیں، جو نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود محبت کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آج تو ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ کل کی نسبت آج کئی ذرائع ہونے کی وجہ سے محبت کرنے والوں کے لیے بڑی آسانیاں موجود ہیں لیکن کیا محبت پر سے قدغنیں کم ہو گئیں ہیں؟ غالباً جواب کوئی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔


پاکستان میں بسنے والے مغرب کے ایجاد کردہ جدید آلات تو استمعال کر رہے ہیں لیکن دماغی بلوغت میں پتھر کے دورکے باسی ہیں۔ ہمارے ملک میں محبت کرنا آج بھی جرم ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں محبت غیرت سے جوڑی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں محبت کی شادی کرنے پر آئے دن لڑکے لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں۔ لیکن کیا اس طرح کے ہتھکنڈوں سے محبت کے جذبے کو مٹایا جا سکتا ہے؟

دیکھا یہی گیا ہے کہ جو انسانی جذبات دبائے جاتے ہیں، وہی زیادہ شدت سے سامنے آتے ہیں۔ دراصل جو انسان آپ کے تخیل پر ایک بار قابض ہو جائے تو پھر کسی اور کے ساتھ زندگی کا سفر محال ہی ہوتا ہے اور یہی محبت کہلاتی ہے۔ یہ ضرور خوش آئند بات ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اب ان سے ہی شادی کو ترجیح دیتے ہیں، جن سے ان کا محبت کارشتہ جڑا ہو۔ آج کی نسل کو یہ شعور ہے کہ ان کو اپنی زندگی پر پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔


امریتا پریتم نے سچ ہی تو کہا ہے، '' اس سے بڑی منافقت کیا ہو گی کہ آپ آنکھیں بند کر کے کسی اور کی موجودگی کو محسوس کریں اور آنکھیں کھولنے پر آپ کے پہلو میں کوئی اور شخص ہو‘‘۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔