خاموشی سے ادا ہوئی رسم دوری

پہلی ملاقات میں ہم دونوں تنہا نہ تھے۔ میز پر کافی کے ساتھ اس کی مسلسل خاموشی بھی رکھی تھی۔ جب خاصا وقت بیت گیا اور کسی بات نے خاموشی کے دروازے پہ دستک نہ دی، تو میں عجلت کی ماری، پوچھے بنا رہ نہ سکی۔

خاموشی سے ادا ہوئی رسم دوری
خاموشی سے ادا ہوئی رسم دوری
user

Dw

تم کچھ کہتے کیوں نہیں؟ ’’مجھے لگتا ہے، کہی بات ہلکی ہو جاتی ہے‘‘۔ ہاں، مگر کچھ باتوں کا اور کچھ لمحوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ زبان سے ادا ہو جائیں۔ ’’کافکا کی بات کریں تو زبان (الفاظ) اظہاریے کا بدترین ترجمہ ہے اور میں بھی کسی حد تک اس سے متفق ہوں‘‘۔

ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ تم نے کافی کا بل دینے کو بٹوہ نکالا تو کہے بنا رہ نہ پائی۔ سچ کہوں تو یہ بل اصولاً خاموشی کو دینا چاہیے۔ اس محفل میں وہ ہم دونوں سے زیادہ موجود تھی۔ تم خاموشی سے مسکرا دیے اور اپنے گھر لوٹ گئے۔


یہ پچھلے پوہ کا واقعہ ہے۔

میں نے تم سے محبت کے اظہار میں قصداً تاخیر کی تھی۔ یہ بات کہیں نہ کہیں میرے دل میں بیٹھی تھی کہ پوہ کی محبتیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ جب تم نے میری یہ منظق سنی تو بھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ جھلی!!! میرے کانوں نے تو سنا مگر تمہارے لبوں نے نہ کہا۔ تم خاموشی توڑنے کے شاید قائل ہی نہ تھے۔

پھر تمہاری خاموشیوں کے مرحلہ وار رنگوں کا ایک سلسلہ سا چل نکلا۔ ایک کے بعد ایک رنگ۔ ہماری محبت، جس دیس میں پڑاو ڈالتی، تمہاری خاموشی اسی بھیس میں اپنا ہاتھ تھمانے آ جاتی۔ تمہاری آغوش میں آئی، تم نے جی جان سے سمیٹ لیا۔ کوئی تقاضا کیا اور نہ کوئی پیمان باندھا۔ خواب دکھائے نہ کوئی امید جگائی۔ بس اپنے شب و روز میں تھوڑی سی جگہ دے دی اور وہ بھی بہت خاموشی سے۔


تم سے محبت کا اظہار کیا، تم نے میری دونوں آنکھوں پہ بوسا دے دیا اور وہ بھی خاموشی سے۔ ہوا میں محبت، سانس لینے سے بھی جنسی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔

مجھے محبت کی طلب ہوئی تو لگی لپٹی رکھے بغیر عرضی ڈال دی۔ تمہارے الفاظ پوری سعادت مندی سے اپنے دائرے میں رہے، ہونٹوں کی فصیل سے آگے نہیں بڑھے۔ تم نے بےکراں محبت میری جھولی میں ڈال دی، اپنی خاموشی نہ توڑی۔


تمہاری خاموشی کا گلہ کیا لیکن پھر بھی جواب میں مسکراتی ہوئی خاموشی ہی ملی۔ روٹھے لمحوں کو منانے کے لیے بھی کبھی کوئی آئی تو تمہاری خاموشی ہی آئی۔ جب دل زیادہ بھر آیا اور رونا چاہا، تمہارا کشادہ سینہ میسر تھا۔ سو تمہاری خاموشی جائز تھی۔ کسی نے میرا ہاتھ تھامنا چاہا تو تمہیں گوش گزار کیا۔ اب کے تمہاری خاموشی شکوہ کناں ہونے لگی۔ کسی کی طرف میں نے جانا چاہا تو تمہاری خاموشی آنکھوں کے راستے گال پہ لڑھک آئی، اپنے ٹوٹنے کی دھمکی دینے لگی۔

خاموشی حد سے بڑھی تو رخصت لینی چاہی مگر یہاں تمہاری خاموشی ڈبڈبائی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ دروازہ پار کرنے کو آئی تو تمہاری خاموشی پیروں سے لپٹ گئی، واسطے دینے لگی۔ سب راستے خود پہ بند پائے، تو دوبارہ تمہارے قدموں میں بیٹھ گئی، اس مرتبہ تمہاری خاموشی آنگن میں ناچتی گاتی پھر رہی تھی۔


خالی پن حد سے بڑھتا تو تمہاری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتی۔ تم مجھ سے زیادہ تہی دامن تھے، میری فرمائش پہ بھی کوئی خواب کہاں میری جھولی میں ڈال سکتے تھے۔ ایسے میں تمہاری خاموشی کو مجھ پہ ترس آتا اور وہ چپکے سے محبت کی تجدید کرتی۔

جب یہ مستقل ہی ہمارے تعلق میں آ بسی تو مجھے وحشت سی ہونے لگی۔ تمہاری گھبرائی گھبرائی خاموشیوں نے ان وحشتوں کو بھی خاموشیوں میں ہی پناہ دی۔ مزید وحشت، مزید خاموشی۔ وسوسوں نے میرے دل میں گھونسلے بنا لیے۔ ڈراوے دینے والے خیالات پیچھا کرنے لگے۔ ایسے میں دل کسی طبیب کو پکارتا تو تمہاری خاموشی ہی چلی آتی۔ وہ خاموشی، جو در اصل تمہارے دو بوسوں کے بیچ کا وقفہ تھی، روح کو سرشار رکھنے والا وقفہ۔


تم ہو یا نہ ہو، تمہاری خاموشی نے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ کمزور لمحوں میں بننے والے سہاروں سے اکثر محبت ہو جاتی ہے۔ مجھے تمہاری خاموشی سے محبت ہو گئی۔ کل رات تمہارا فون آیا، ایک لمبی خاموشی کے بعد تم سے کہا کہ اب شاید مجھے محبت نہیں رہی اور پہلی مرتبہ تمہاری خاموشی ٹوٹی۔ فون کے اس پار تمہاری ہچکیاں اپنے ساتھ نمی لا رہی تھیں۔ اس پوہ تمہاری خاموشی ٹوٹ چکی تھی مگر اس پوہ میری محبت خاموش ہو چکی تھی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔