عدالتوں میں خواتین کی کم نمائندگی: عوامل کیا ہیں؟
پاکستان کی سپریم کورٹ میں وکلاء کی کُل تعداد چھ سو ستاسی ہے۔ اس کا محض پینتالیس خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین وکلاء نے اپنی اس کم نمائندگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ تفصیلات اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت جاری کی ہیں جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت میں صرف دو معذور افراد زیر ملازمت ہیں۔ خواتین وکلا کا کہنا ہے کہ کئی عوامل خواتین کی اس کم نمائندگی کے ذمہ دار ہیں۔
واضح رہے کہ 15 اکتوبر کو ایک تین رکنی بینچ جس کی صدارت چیف جسٹس قاضی فائض عیسی کر رہے تھے نے رجسٹرار کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عدالت کے اسٹاف کے حوالے سے اطلاعات ایک شہری مختار احمد علی کو جاری کرے۔ مختاراحمد علی نے اس حوالے سے پہلے ہی رجسٹرار سپریم کورٹ اور انفارمیشن کمیشن سے درخواست کی تھی، جسے مسترد کردیا گیا تھا۔
ان تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں منظور شدہ آسامیاں 894 ہیں۔ تاہم ان میں سے 207 اسامیاں خالی ہیں۔ ان 45 خواتین میں 33 کی ملازمت مستقل بنیادوں پر ہے جبکہ 12 مستقل ملازم نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں خواتین کی کم نمائندگی کے مسئلے پر حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ماضی میں متعدد مرتبہ آواز اُٹھائی لیکن ملک میں خواتین لا گرجویٹس کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی ضلعی عدالتوں یا ہائی کورٹس میں ان کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں بھی خواتین کی نمائندگی تسلی بخش نہیں ہے۔
ہراسگی اور معاشرتی رویہ
کراچی سے تعلق رکھنے والی ہائی کورٹ کی ایک سینیئر وکیل عذرا اقبال کا کہنا ہے کہ معاشرتی رویہ اور بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ وہ دو بنیادی عوامل ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس شعبے میں بڑے پیمانے پہ نہیں آ رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں وکلا کی ایک بڑی تعداد اچھی خاصی پڑھی لکھی ہوتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگوں کے پاس صرف ڈگریاں ہیں۔ خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کا خوف ہے جبکہ والدین یا رشتہ دار بھی خواتین لا گریجویٹس کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘
عذرا اقبال کا کہنا تھا کہ صرف وہی خواتین اس پروفیشن میں آتی ہیں جو ذہنی اور اعصابی طور پر بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ ''صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین قانون میں گریجویشن کر لیتی ہیں لیکن پریکٹس نہیں کرتیں جس کی وجہ سے ان کی ڈگری ایک طریقے سے ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘
کم نمائندگی باعث تشویش ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والی وکیل ماریہ فاروق کا کہنا ہے کہ انہیں خواتین کی اس کم نمائندگی پہ تشویش ہے اور یہ کہ اس کم نمائندگی کی وجہ سے خواتین کی پروفیشنل گروتھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کم نمائندگی کی ایک وجہ نو آبادیاتی قانون لیگل پریکٹیشنرز ایکٹ ہے، جس میں 1932ء میں ترمیم کر کے خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے پہلے خواتین کو اس پروفیشن کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘‘
ثقافتی اور سماجی تعصبات
ماریہ فاروق کے مطابق اس کے علاوہ ثقافتی اور سماجی تعصبات بھی خواتین وکلا کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔ ''ہمیں کچھ ہراسمنٹ کی مثالیں بھی ملتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پروفیشن خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے جب تک پورے نظام میں اور سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں ہوتی اور بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء برادری اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، خواتین وکلاء کی مناسب نمائندگی مشکل رہے گی۔‘‘
ماریہ فاروق کا مزید کہنا ہے کہ تاریخی عوامل بھی اس حوالے سے پیش نظر رکھنے چاہیے۔ ان کے بقول،'' تاریخی طور پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور سول کورٹس پہ ہمیشہ سے مردوں کا تسلط رہا۔ اسی لیے وکلاء اور ججز کی ایک بڑی تعداد بھی مردوں میں ہی سے لی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدلیہ میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ جبکہ ریڈرز، اسٹینوگرافرز اور اسٹاف کے دوسرے لوگ بھی زیادہ تر مرد ہی ہیں۔‘‘
کوٹہ مختص کیا جائے
پاکستان میں پسماندہ علاقوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے ملازمتوں اور دوسرے شعبوں میں جگہ دی گئی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ اس خلا کو بھی پر کرنے کے لیے خواتین کا عدالتوں میں کوٹہ مختص ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''موجودہ چیف جسٹس نے ایک عورت کو سپریم کورٹ کا رجسٹرار بنا کر ایک مثبت کام کیا ہے۔ ملازمتوں کے معاملے میں اگر خواتین میرٹ پر اترتی ہیں اور ٹریننگ کے بعد وہ عدالت یا عدالتی اسٹاف کا حصہ بن سکتی ہیں، تو خواتین کے لیے کوٹہ مختص کر کے ایسا کیا جانا چاہیے۔‘‘
سدرہ ہمایوں کے مطابق عدالتوں میں خواتین ججوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین سائلین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ''اگر نچلی عدالتوں میں خواتین ججوں اور عدالتی عملے میں ان کی مناسب تعداد ہوگی تو سائلین خواتین کے لیے بہت آسانی ہوسکتی ہے۔ عدالتوں میں ہر جگہ مرد ہی مرد موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے خواتین سائلین اپنا مدعا سماجی و ثقافتی عوامل اور مردوں کی موجودگی کی وجہ سے درست طریقے سے بیان نہیں کر پاتیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔