کم جونگ ان کی بیٹی ان دنوں سرخیوں میں کیوں ہیں؟
شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کو اپنی بیٹی کے ساتھ عوامی سطح پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ ان کی وارث ہو سکتی ہیں۔
شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم جونگ ان کی اپنی سب سے بڑی بیٹی کے ساتھ تصویریں حالیہ مہینوں میں قومی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہیں۔ ان تصویروں میں وہ نومبر میں ایک میزائل لانچنگ سائٹ پر اپنی بیٹی کو ہاتھ پکڑے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک دوسری تصویر میں وہ اپنے والد کے کندھے پر کھڑی ہیں اور سامنے سے ان کے وفادار فوجی بڑی تعداد میں گزر رہے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کم جونگ ان کی سب سے بڑی بیٹی کم جو آئی کی پیدائش سن 2013 میں ہوئی تھی اور کم کے تین بچوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ کم کی ایک اور بیٹی اور ایک بیٹا بھی ہے۔
دنیا کی واحد کمیونسٹ خاندان کے سربراہ کے ساتھ اس تصویر کے منظر عام پر آنے سے جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس سروس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر غالباً یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ کم کی آنے والی نسلیں ہی ریاست پر حکمرانی کریں گی۔
تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فی الحال یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا کہ کم جو آئی اپنے والد کی جانشین ہوں گی کیونکہ اس کے لیے شمالی کوریا کے مردوں کے غلبے والے سماج میں لوگوں کے رجحانات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس کی بلاشبہ اعلیٰ عہدوں پر فائز فوجیوں اور سیاسی رہنماوں کی جانب سے مزاحمت ہوگی۔
کم کے ارادے ابھی واضح نہیں ہیں
تجزیہ کار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صرف کم کو ہی یہ بات معلوم ہے کہ آیا ان کا اپنی بیٹی کو اس کمیونسٹ ملک کا رہنما بنانے کا کوئی ارادہ ہے یا نہیں۔ شمالی کوریا کی میڈیا میں ایسی تصویریں شائع ہوئی ہیں جن میں اعلیٰ حکام کو کم جو آئی کے سامنے جھکے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں جو آئی کو کم کی "سب سے پیاری" اولاد کہا گیا ہے۔ وہ ایک سفید پارکا اور فر کے کالر والا لمبا کوٹ پہنے ہوئی ہیں۔ اس تصویر سے ان کی والدہ ری سول جو کی فیشن کی سمجھ بھی ظاہر ہوتی ہے، جو کہ شمالی کوریا میں ایک فیشن آئیکن سمجھی جاتی ہیں۔
لیکن جنوری کے اوائل میں ایک پریس بریفنگ میں، جنوبی کوریا کی نیشنل انٹیلیجنس سروس نے سینیئر سیاستدانوں کو بتایا تھا کہ اپنی بیٹی کو عوامی مقامات پر لے جا کر، کم پہلے ہی اس بات کی بنیاد رکھ رہے ہیں کہ پیونگ یانگ میں اقتدار کی تیسری موروثی جانشینی کیا ہوگی۔ کِم نے خود اپنے والد کم جونگ اِل سے عہدہ سنبھالا تھا جب وہ دسمبر 2011 میں اچانک انتقال کر گئے۔ شمالی کوریا کی قیادت کا دعویٰ کرنے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے مدنظر خود کم جونگ ان کو کئی سالوں تک اپنے والد کا منتخب جانشین نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہ عہدہ ان کے بڑے سوتیلے بھائی کم جونگ نم کو ملنے کی توقع تھی۔ لیکن ڈومنیکن جمہوریہ کے ایک جعلی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے سن 2001 میں ٹوکیو کے ہوائی اڈے پر گرفتار کر لیے جانے کے بعد ان کے والد ان سے ناراض ہو گئے۔ گرچہ کم جونگ اُن اپنے سوتیلے بھائی کو شکست دے کر اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم وہ اپنی قانونی حیثیت اور حکمرانی کے لیے انہیں خطرہ سمجھتے رہے۔ سن 2017 میں کم جونگ نام کو کوالالمپور ہوائی اڈے پر ایک اعصابی گیس کے ذریعہ قتل کر دیا گیا اور حملہ آور مبینہ طور پر شمالی کوریا فرار ہو گئے۔
کیا کم جونگ ان بیمار ہیں؟
ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ کم جونگ اُن کی صحت بہتر نہیں ہے۔ ان کی تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمباکو نوشی کی عادت اور گٹھیا اور ممکنہ طور پر ذیابیطس کی بیماری سے جدوجہد کر رہے ہیں، جیسا کہ ان کے والد کو بھی ان امراض کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی عمر صرف 39 سال ہے، لیکن ممکنہ طور پر جانشینی کا سوال پیونگ یانگ میں اقتدار کے ایوانوں میں پہلے ہی ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔
ٹوکیو کی واسیڈا یونیورسٹی کے پروفیسر اور کم خاندان پر متعدد کتابوں کے مصنف توشیمیتسو شیگیمورا کا کہنا ہے، ''میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ لڑکی اپنے والد سے ذمہ داریاں سنبھال سکے گی، بنیادی طور پر اس لیے کہ وہ خاتون ہے۔'' انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''شمالی کوریا ایک زبردست قدامت پسند اور کنفیوشسسٹ معاشرہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ کم جو آی کا اپنے والد کے جانشین کے طور پر ابھرنا ناممکن ہے۔''
انہوں نے کہا،"میرے خیال میں ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ وقت آنے پر وہ اپنے بیٹے کو کنٹرول سونپنے کا انتخاب کریں گے، لیکن وہ یقینی طور پر یہ چاہیں گے کہ سربراہ کا عہدہ خاندان میں برقرار رہے، اور اس کی پیروی کرے جسے شمالی کوریا میں 'پائیکتو خونی رشتہ' کہا جاتا ہے۔
ماؤنٹ پائیکتو چین کے ساتھ سرحد پر پھیلا ہوا ہے۔ جس کے بارے میں شمالی کوریا کی پروپیگنڈہ مشنری کا دعویٰ ہے کہ قوم کے بانی اور کم جونگ ان کے دادا کم ال سنگ اور ان کے گوریلا جنگجووں کا ٹھکانہ وہیں تھا، جہاں سے انہوں نے سن 1940کی دہائی میں کوریائی جزیرہ نما کے جاپانی قابضین کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ حالانکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا بیشتر وقت روس میں بے گھر افراد کے لیے ایک کیمپ میں گزارا اور جب جنگ ختم ہوگئی تو ماسکو نے انہیں اپنے کٹھ پتلی کے طور پر شمالی کوریا پر مسلط کر دیا۔
توجہ ہٹانے کی کوشش
شیگیمورا کا کہنا تھا، "مجھے یقین ہے کہ کم نے اپنی بیٹی کو شمالی کوریا کی میڈیا کے سامنے اور ان علامتی مقامات ایک خاص مقصد سے پیش کیا ہے۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اقتصادی پابندیوں اور کووڈ وبا کے سبب سرحدوں کی بندش سے درپیش مسائل کے باوجود وہ انتہائی پرعزم ہیں۔"
انہوں نے کہا،"وہ لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنے خوش و خرم خاندان کو دکھا رہے ہیں اور یہاں تک کہ لوگوں کو یہ ظاہر کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں ایک والد اور ایک رہنما کے طورپر وہ ان سے کتنے متاثر ہوئے ہیں۔" شیگیمورا کا کہنا ہے کہ کم دراصل یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں، وہ مخالفت کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جنوبی کوریا کی کونگجو نیشنل یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کی پروفیسر لم یون جنگ کا خیال ہے کہ کم کے بچوں کی موجودہ عمروں کو دیکھتے ہوئے ابھی یہ قیاس کرنا قبل از وقت ہوگا کہ کون اقتدار پر فائز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کم صحت مند نظر نہیں آرہے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں کم جو آئی شمالی کوریا کی رہنما بن جائیں کیونکہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہیں۔
لم یون جنگ کا خیال ہے کہ "باپ اور بیٹی کی ان تصویروں کی اشاعت کے ذریعہ شمالی کوریا کے عوام کو غالباً یہ اشارہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں نئی نسلوں کے لیے مستقبل روشن ہے۔ موجودہ صورت حال میں ان تصویروں میں بہت کچھ پڑھنا قبل از وقت اور کافی مشکل بھی ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔