افغانستان میں بھارت کے درجنوں پروجیکٹوں کو دھچکا
بھارت نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران افغانستان میں انسانی اور ترقیاتی پروجیکٹوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ تاہم ان منصوبوں کو اب کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے ایک پارلیمانی پینل کو بتایا ہے کہ افغانستان کی موجودہ سیاسی اور سکیورٹی صورت حال کے سبب، وہاں بھارت کی مدد سے شروع کیے جانے والے متعدد پروجیکٹوں کو زبردست دھچکا پہنچا ہے اور انہیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حکمراں بی جے پی کے رکن پارلیمان پی پی چودھری کی صدارت والی امور خارجہ سے متعلق پارلیمانی پینل کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے مالی امداد میں کمی ہوئی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ اس نے پارلیمانی پینل کے تبصروں کو نوٹ کیا ہے اور ان کو حل کرنے کے لیے کام کرے گی۔
وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "اس حوالے سے متعدد تجاویز پر عمل درآمد شرو ع کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے ان پروجیکٹوں کے نفاذ کو دھچکا پہنچا ہے۔"
افغانستان میں بھارت کے اہم پروجیکٹس
بھارت افغانستان کے مختلف صوبوں میں متعدد شعبوں میں 500 سے زائد پروجیکٹوں پر عمل درآمد میں مدد کر رہا ہے۔ ان میں کئی پروجیکٹ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بھارت افغانستان میں جن پروجیکٹوں کی تعمیر میں مدد کر رہا ہے ان میں ملک کے سب سے بڑے ڈیم میں سے ایک سلمیٰ ڈیم شامل ہے۔ یہ اس خطے میں بھارت کا سب سے مہنگا پروجیکٹ ہے۔ اس پر بھارت 275 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر ہونے کے بعد ہرات صوبے میں لاکھوں کنبوں کو پانی اور بجلی فراہم ہوگی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت کے صدر اشرف غنی کے ساتھ سن 2016 میں اس ڈیم کا افتتاح کیا تھا۔ اس کی تعمیر کے لیے 10 برس کی مد ت طے کی گئی تھی لیکن اب یہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت نے ایران کی سرحد کے نزدیک 218 کلومیٹر طویل زارنج ڈیلارام شاہراہ بھی تعمیر کی ہے جس پر 600 کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی۔ اسے بھارتی فوج سے وابستہ بارڈر روڈ آرگنائزیشن نے تعمیر کیا تھا۔
بھارت کے سینٹرل پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (سی پی ڈبلیو ڈی) نے افغانستان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر پر 90 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اسے جنگ زدہ ملک کے لیے بھارت کی جانب سے تحفہ قرار دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے سن 2015 میں اس عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ کابل میں بچوں کے لیے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ فار چائلڈ ہیلتھ بھی بھارت کے تعاون سے کام کر رہا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر بھی بھارت کے اہم پروجیکٹوں میں سے ایک ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اسٹریٹیجک اور خارجہ امور کے ماہر ڈان میک لین گل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا بہت کچھ داو پر لگا ہوا ہے۔ بھارت وہاں کنکٹیویٹی پروجکیٹوں سے لے کر انرجی سکیورٹی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے انسداد جیسے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
میک لین کے مطابق بھارت نے افغانستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کافی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے ایسے میں اسے اقتدار پر فائز طالبان کے ساتھ طویل مدتی تعاون کرنے پر غور کرنا چاہئے، خواہ وہ طالبان حکومت کو براہ راست تسلیم کرے یا نہ کرے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ نئی دہلی اپنی اسٹریٹیجک ضرورتوں کے مدنظر افغانستان یا طالبان سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔