بھارتی مسلمانوں کی وزیر داخلہ سے ملاقات میں تشدد کے واقعات پر اظہار تشویش
مسلمانوں کے ایک وفد نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کے دوران ملک میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی۔ وفد نے قصورواروں کے خلاف 'سخت کارروائی' کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی قیادت میں مسلم رہنماؤں کے ایک 16 رکنی وفد نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی اور اس بات کی جانب ان کی توجہ مبذول کرائی کہ ملک کے مختلف حصوں میں ''مسلمانوں خلاف ہونے والے تشدد'' میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق منگل کے روز ہونے والی یہ میٹنگ تقریبا ایک گھنٹے تک چلی، جس کے دوران مسلم وفد نے ملک میں مسلم کمیونٹی کو متاثر کرنے والے بہت دیگر مسائل پر بات چیت کی۔ اس میں جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کو ختم کرنے کا بھی معاملہ اٹھایا گیا، جسے بی جے پی کی ریاستی حکومت نے حال ہی میں ختم کردیا ہے۔ ملک میں ''بے لگام نفرت انگیز مہم اور بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا'' پر بھی بات ہوئی۔
ماب لنچنگ یعنی مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ہجومی تشدد کے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور یکساں سول کوڈ نیز دینی مدارس کی خود مختاری پر بھی بات چیت کی گئی۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور ریاست آسام میں مسلمانوں کے جبری انخلا کا مسئلہ اٹھانے کے ساتھ ہی وقف بورڈ کی املاک اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جمعیت علماء کے ترجمان نیاز احمد فاروقی نے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا: ''یہ ایک اچھی ملاقات تھی اور وزیر داخلہ سننے میں کافی مثبت تھے۔ ہمیں لگتا ہے کہ جن معاملات کو اٹھایا گیا ہے، وہ اس پر ایکشن لیں گے۔'' اطلاعات کے مطابق وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ بات چیت کے دوران محمود مدنی نے اس معاملے کو خاص طور پر اجاگر کیا کہ کس طرح بھارتی مسلمانوں کے خلاف آئے دن ''کھلی نفرت کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔''
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ملک میں نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اقتصادی طور پر بھی مسلم کمیونٹی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جمعیت کے ایک بیان کے مطابق، مدنی نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ایسے ''ملک دشمن افراد اور تنظیموں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔''
واضح رہے کہ رام نومی کے موقع پر جلوسوں کے دوران ملک کے متعدد شہروں میں سخت گیر ہندوؤں نے رمضان کے دوران مسلمانوں کی مساجد، مدارس اور دیگر اداروں کو نشانہ بنایا اور توڑ پھوڑ کی۔ ان حملوں کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کے اداروں کو کافی نقصان پہنچا ہے، لیکن پولیس نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا ہے۔
اسلامی مدارس کے بارے میں مسلم وفد نے کہا کہ امیت شاہ نے انہیں بتایا کہ حکومت کو مدارس میں قرآن و حدیث پڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، تاہم بچوں کو جدید تعلیم بھی دی جانی چاہیے۔ وفد نے مسلم طلبہ کے لیے مولانا آزاد اسکالرشپ کا مسئلہ بھی اٹھایا، جسے منموہن سنگھ کی حکومت نے شروع کیا تھا اور مودی حکومت نے بند کر دیا ہے۔
دو روز قبل ہی اسلامی ممالک کے 57 رکنی بلاک اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی بھارت سے اسی طرح کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا تشدد اس بات کا واضح مظہر ہے کہ بھارت میں اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے اور مسلم برادری کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
او آئی سی کے جنرل سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ''بھارت کی متعدد ریاستوں میں رام نومی کے جلوسوں کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے تشدد اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں پر اسے گہری تشویش ہے، جس میں 31 مارچ کو بہار شریف میں انتہا پسند ہندوؤں ہجوم کی جانب سے ایک مدرسے اور اس کی لائبریری کو نذر آتش کرنا بھی شامل ہے۔''
او آئی سی نے بھارتی حکومت سے ملک کی مسلم کمیونٹی کی سلامتی، ان کے تحفظ، حقوق اور وقار کو یقینی بنانے کے لیے کہا ہے۔ تاہم بھارت نے جواباً آئی سی کو ہی ''فرقہ وارانہ ذہنیت'' کا قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے رام نومی کے موقع پر بھارت کی ریاست مغربی بنگال، بہار، گجرات اور مہا راشٹر سمیت کئی دیگر ریاستوں میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ایسے بیشتر واقعات سے متعلق فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کا ہجوم مساجد مدارس یا مسلم علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔