’جنس کے موضوع پر بات نہ کریں‘، اطالوی معاشرہ مخمصے میں
یورپی یونین کے نو ایسے رکن ممالک میں سے ایک اٹلی بھی ہے جہاں جنسی تعلیم کی کلاسیں لازمی نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں اس ضمن میں تبدیلی کی بہت کم اُمید پائی جاتی ہے۔
ایک اطالوی سائیکو تھراپسٹ انٹونیو پلائی میلان یونیورسٹی کے بائیومیڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں بچوں اور نوجوانوں کے نفسیاتی امراض کا علاج کرتے ہیں اور محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''بچے اور ہر نوجوان جنسی معلومات کے لیے زیادہ سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘‘
مغربی ملک اٹلی میں ابھی بھی نصاب میں جنسی تعلیم لازمی نہیں ہے۔ 1975ء سے ملک بھر میں جنسی تعلیم متعارف کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ اٹلی، یورپی یونین کے ممالک بلغاریہ، پولینڈ، رومانیہ، لیتھوانیا، ہنگری، سلوواکیہ، کروشیا اور اسپین کے ساتھ ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں ہر جگہ اسکول میں سیکس کی تعلیم کا بندوبست نہیں ہے۔ اٹلی کے مختلف علاقے خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا ان کے ہاں جنسی تعلیمی منصوبوں کی مالی اعانت کی جانا چاہیے اور یہ تعلیم اسکولوں میں دی جانا چاہیے یا نہیں۔
آگاہی بذریعہ انٹرنیٹ
نفسیاتی بیماریوں کے ماہر پیلائے اس بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ نوجوانوں پر جنسی تعلیم بذریعہ انٹرنیٹ حاصل کرنے کے کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟ کیونکہ جنسی عمل اور جنسی بیماریوں کے بارے میں انٹرنیٹ پر جھوٹی معلومات اور نصف حقیقت کے علاوہ، فحش نگاری کی بھرمار ہے جو بہت بڑا خطرہ ہے۔ خاص طور پر لڑکوں کے لیے، وہ کہتے ہیں، ''انٹرنیٹ پر جنسی عمل کی تصویر کشی بہت پرتشدد ہوتی ہے اور اکثر نسل پرستانہ رویوں اور پیڈو فیل یا بچے بازی کے کردار کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت کچھ منفی اثرات کا موجب ہوتا ہے۔ جب تعلیم کی بات آتی ہے تو الجھن اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے- اور دیگر مسائل جن سے نوعمر افراد جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں،مزید ذہنی الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘
جنسی بیماریوں میں دوبارہ اضافہ
دیگریورپی معاشروں کی طرح اٹلی میں بھی طرح طرح کی جنسی بیماریاں دوبارہ سے پھیل رہی ہیں۔ خاص طور پر کلیمائڈیا انفیکشن۔ یہ جنس کا ایک طفیلی جرثومہ ہوتا ہے جو پیشاب کی نالی کی سوزش پیدا کرتا ہے۔ اطالوی سینٹر فار سیکسولوجی کی صدر معروف سائیکو تھراپسٹ ماریا کرسٹینا فلورینی کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ سے حاصل کی جانے والی جنسی اور صحت کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ اس موضوع کے بارے میں تبادلہ خیال بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''اساتذہ کو پورے تعلیمی سال میں جنسی تعلیم دینی چاہیے کیونکہ وہ طلبہ کی ذہنیت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان نوجوانوں تک معلومات پہنچانے کے لیے ان کا ایک الگ ہی سا تعلق ہوتا ہے۔‘‘
سیکسولوجسٹ کا کہنا ہے کہ مسائل کو کھل کر حل کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری کردار نہایت اہم ہے۔ اس کے لیے اساتذہ کو نہ صرف ذمہ داری، بلکہ مناسب تربیت فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح، طلباء جنسی صحت کے سلسلے میں اپنی اور دوسروں کی ذمہ داری سمجھنے اور لینے کے عمل کو سیکھ سکتے ہیں۔
لازمی جنسی تعلیم ایک فوری ضروت
سینٹر فار سیکسولوجی سے منسلک کرسٹینا فلورینی نے بھی کئی دیگر اداروں کی طرح حکومت کو جنسی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اٹلی کو فوری طور پر جنسی تعلیم کے لیے ایک ایسے خیال یا نظریے کی ضرورت ہے جو ڈیجیٹل دنیا سے مطابقت رکھتا ہو۔
16 کوششیں اور سب ناکام
1975ء کے بعد سے اٹلی میں 16 مختلف مہمیں چلائی جا چُکی ہیں تاکہ اسکولوں کو جنسی تعلیم فراہم کرنے کا پابند بنایا جائے۔ 2021ء میں اس سلسلے میں قانون سازی کا اقدام بھی ناکام رہا۔ یہ معاملہ اب موجودہ وزیر تعلیم کے ہاتھ میں ہے، جو دائیں بازو کی عوامیت پسند لیگا پارٹی کے رکن ہیں۔ یہ سیاستدان ''صنفی پراپیگنڈے‘‘ کے خلاف ہیں اور بچوں کی پرورش میں والدین کے مضبوط کردار پر زور دیتے ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی کے ایجنڈا میں زیادہ توجہ بچے کی پیدائش اور مسیحی اقدار کے مطابق ’’قدرتی خاندان‘‘ کے فروغ پر مرکوز ہے۔ میلونی کا ایک خاندان کا تصور صرف مرد اور عورت پر مبنی ہے۔
بعض سیاستدان تبدیلی کے خواہسش مند
انتہائی دائیں بازو کی موجودہ اطالوی حکومت میں تاہم چند ایسے سیاستدان بھی شامل ہیں جو جنسی تعلیم کی لازمی کلاسوں کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔ رومن سٹی کونسل کے تین ارکان نے گزشتہ سال اس سلسلے میں ایک پٹیشن شروع کی تھی۔ سٹی کونسلر ایوا ویٹوریا کیمرینو بھی اس اقدام کی حمایت کرتی ہیں، جسے ریاستی سطح تک پھیلایا جانا ہے۔ حقوق نسواں کے آن لائن میڈیم فریڈا کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، ’’چرچ کی موجودگی ناقابل تردید ہے اور درحقیقت روایتی پدرانہ نقطہ نظر کی عکاس ہے، جس میں خواتین کا ہمیشہ ایک ماتحت کردار رہا ہے۔‘‘ اٹلی میں بچوں اور نوجوانوں کی ناکافی جنسی تعلیم بنیادی طور پر امتیازی سلوک، جنس پرستی اور ہومو فوبیا بلکہ خواتین کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔