عالمگیر صنفی مساوات کی منزل ابھی تین صدیاں دور، اقوام متحدہ
رواں سال کے آخر تک اڑتیس کروڑ سے زائد عورتیں اور لڑکیاں انتہائی غربت میں چلی جائیں گی اور یومیہ دو ڈالر سے کم میں گزر بسر پر مجبور ہوں گی۔ عالمی سطح پر صنفی مساوات کےحصول میں ابھی تین صدیاں لگیں گی۔
اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ مختلف حالیہ بحرانوں کے سبب دنیا میں صنفی تفریق کی وجہ سے پائی جانے والی خلیج مزید وسیع ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس وقت جس رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے، اس کی بنیاد پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مکمل صنفی مساوات کے حصول میں عالمی برادری کو ابھی مزید تین صدیاں لگ جائیں گی۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے 'یو این ویمن‘ نے تیار کی ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے، ''صنفی مساوات کے حصول کے حوالے سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ان میں پیش رفت کی موجودہ شرح کے مطابق قانونی تحفظ کی راہ میں حائل خلیج عبور کرنے اور تفریق آمیز قوانین کو ختم کرنے میں ابھی 286 برس لگیں گے۔ اس کے علاوہ روزگار کی جگہوں پر اختیارات اور قیادت کے لحا ظ سے مساوی نمائندگی کے لیے بھی خواتین کو ابھی 140برس انتظار کرنا پڑے گا جب کہ قومی پارلیمانی اداروں میں مساوی نمائندگی کے حصول میں بھی مزید کم از کم 40 برس لگیں گے۔‘‘
پائیدار ترقی کے طے شدہ اہداف کا حصول ممکن نہیں
اس رپورٹ میں صنفی مساوات کے حوالے سے مستقبل بعید کے جن امکانات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف یا ایس ڈی جیز کے تحت سن 2030 تک عالمگیر صنفی مساوات کے حصول کے لیے مقررہ وقت سے تو بہت ہی دور ہیں۔
’یو این ویمن‘ نے یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے محکمہ اقتصادیات اور سماجی امور کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''عالمی چیلنجز مثلاً کووڈ انیس کی وبا اور اس کے بعد کے حالات، پرتشدد تصادم، ماحولیاتی تبدیلیوں اور خواتین کے خلاف جنسی حملوں نیز ان کی صحت اور بارآوری اور حقوق کے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے پیدا شدہ صنفی مساوات کی خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس کے اواخر تک تقریباً 38 کروڑ 30 لاکھ خواتین اور لڑکیاں انتہائی غربت میں چلی جائیں گی اور انہیں یومیہ 1.90 امریکی ڈالر کے برابر مالی وسائل میں ہی گزر بسر کرنا پڑے گی۔ اس کے مقابلے میں انہی حالات کا شکار مردوں اور لڑکوں کی تعداد تقریباً 36 کروڑ 80 لاکھ ہو گی۔
اس رپورٹ کے مطابق یہ غربت کو ختم کرنے کی جنگ کے حوالے سے بھی ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ سن 2021 کے اواخر تک 44 ملین خواتین اور لڑکیوں کو جبراً بے گھر کر دیا گیا تھا، جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ بچہ پیدا کرنے کی عمر والی 1.2 ارب سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں ایسے ممالک میں رہ رہی ہیں، جہاں اسقاط حمل کے امکانات تک رسائی پر بھی پابندی ہے۔
فوری اقدامات کی ضرورت
’یو این ویمن‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیما باہوس کا کہنا تھا، ''اگر ہم ترقی چاہتے ہیں اور اس کی رفتار بھی تیز کرنا چاہتے ہیں، تو خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کے لیے فوری سرمایہ کاری کرنا انتہائی اہم ہے۔‘‘
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آمدنی، تحفظ، تعلیم اور صحت جیسے امورمیں عالمی بحرانوں نے خواتین کی حالت مزید ابتر کر دی ہے۔ اس رجحان کو بدلنے میں ہمیں جتنا زیادہ وقت لگے گا، ہمیں اس کی اتنی ہی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔