اسلام آباد کی کچی بستیوں کے مسائل

اسلام آباد میں چودہ کچی بستیاں ہیں، جن میں زیادہ تراقلیتی مسیحی برادری آباد ہے۔ اس شہر کو صاف رکھنے والوں میں مسیحی کارکنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن یہاں بستیاں کوڑے اور تعفن سے بھری رہتی ہیں۔

اسلام آباد کی کچی بستیوں کے مسائل
اسلام آباد کی کچی بستیوں کے مسائل
user

Dw

اسلام آباد کے کئی اہم علاقوں میں گندے نالوں کے کنارے قائم یہ کچی بستیاں سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں مگر شہر میں ترقیاتی امور کا ذمے دار ادارہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نہ صرف اس بارے میں خاموش ہے بلکہ اس پر ان بستیوں کے قیام اور تسلسل میں درپردہ معاونت کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

شہر کے سیکٹر جی سیون میں ایسی ہی ایک کچی بستی کی مسیحی خاتون رہائشی وینس خانم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بستی میں بارش کا پانی نالیوں میں رکا رہتا ہے، ''جس سے ڈینگی اور دیگر بیماریاں پھیلتی ہیں۔ بارش کا پانی اور بار بار آنے والے سیلاب روزمرہ زندگی کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔‘‘ وینس خانم کے بقول ان کے چار بچے ہیں، جو ایک مقامی سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں، جہاں انہیں ان کے سماجی پس منظر کے باعث تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔


چھیاسٹھ کوارٹر نامی کچی بستی کی ایک مکین شہلا بدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بستی کے تمام بچے اسکول تو جاتے ہیں مگر بعد میں وہ اس بہت گندگی اور متعفن بستی میں سارا دن آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں۔ شہلا بدر نے بتایا، ''ہمیں بنیادی سہولیات مثلاً بجلی، پانی، ذرائع آمد و رفت اور صاف مگر سستی رہائش کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی بھی اشد ضرورت ہے مگر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔‘‘

اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں اکرم مسیح ِگل کالونی کے مکین عمران مسیح نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بستی میں ووٹ مانگنے تو سبھی آتے ہیں کیونکہ سیاست دانوں کے نزدیک ایسی بستیوں کے رہائشی باشندوں کے ووٹ بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں، ''لیکن کیا ہم اور ہماری جانیں قیمتی نہیں ہیں؟ عام پاکستانی شہریوں کی طرح ہمیں سہولیات اور مراعات کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں یا ہمارے حقوق دوسروں کے برابر نہیں؟‘‘


اسلام آباد کی خوبصورتی کی مثالیں دینے والے جب مقامی مسیحیوں کی ایسی کچیبستیوں میں پہنچتے ہیں، تو رنگ و خوشبو کے بجائے ان کا استقبال بدبو اور تعفن کرتے ہیں۔ ان بستیوں کے کئی مکینوں نے شکایت کی کہ حکومتی حلقوں کو یہ محرومی اور تعفن کسی طور نظر نہیں آتے۔ نتیجہ یہ کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ان بستیوں کے غریبوں کی قسمت نہیں بدلتی۔

تقریباً یہی کچھ پی ٹی آئی کے تین سالہ دور حکومت میں بھی ہوا۔ مگر چھیاسٹھ کوارٹر نامی بستی کے سابقہ یونین کونسلر حمید چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بدلی نہ جاتی، تو وہ اس بستی کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گندگی سیلاب کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، ورنہ صورتحال قدرے بہتر ہوتی۔


جب ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس بستی کے دیگر بچوں کی طرح ان کے بچے بھی اسکول نہیں جاتے، تو انہوں نے فخریہ کہا کہ ان کے بچے ایک پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور ان کو بستی کے دیگر مسائل کا سامنا بھی نہیں ہے۔

سی ڈی اے کے ڈائریکٹر سعید اختر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کچی بستیوں کے مسائل شدید نوعیت کے ہیں۔ ان کے مطابق سی ڈی اے نے کچی بستی سیل تو بنا رکھا ہے، لیکن اس کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی بجٹ کہ ان بستیوں کی صورت حال بہتر بنائی جا سکے۔ سی ڈی اے کی جانب سے قانونی آبادیوں کے مکینوں کو تین تین مرلے کے پلاٹ الاٹ کیے جاتے ہیں، جو کسی اور کو منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ پھر انہیں سی ڈی اے کے لیٹر کے ساتھ بجلی کے میٹر الاٹ کیے جاتے ہیں۔


سعید اختر خان کے مطابق ان کچی بستیوں کے حالات اس لیے بھی مخدوش ہیں کہ کچھ اقلیتی سیاسی لیڈر لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر شہروں سے مسیحیی خاندانوں کو پہلے یہاں شفٹ کرواتے ہیں اور پھر انہیں زبردستی سی ڈی اے میں بھرتی کروایا جاتا ہے اور یہ سارا عمل ایک''بہت لمبی ووٹ گیم‘‘ بن جاتا ہے۔

سعید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عملی پلاننگ اس چیز کی ہوتی ہے، جو کسی پلان کے مطابق ہو۔ مگر جہاں کوئی پلامنصوبہ ہی نہ ہو، وہاں پلاننگ کیا اور کیسے کی جائے؟ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ عام بستیاں بہت گنجان آباد اور وسائل کی کمی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ پورا شہر صاف کرنے والوں کی اپنی کچی بستیاں تعفن زدہ کیوں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس میں خود انبستیوںکے مکینوں کا بھی قصور ہے۔


انہوں نے کہا، ''سی ڈی اے تو روزانہ گاڑیاں بھیجتی ہے جو کوڑا اکٹھا کرتی ہیں، لیکن چونکہ ان بستیوں کی گلیاں بہت تنگ ہیں، اس لیے ان گاڑیوں کا وہاں داخلہ ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ شہر بھر کو صاف رکھنے والے یہی لوگ ایساکیوں نہیں کرتے کہ اپنا کوڑا کرکٹ روزانہ کم از کم وہاں تک ہی لے آئیں، جہاں تک کوڑا اٹھانے والی گاڑی پہنچ جاتی ہے۔ یوں وہاں گندگی میں اضافہ تو نہیں ہو گا۔‘‘

پاکستان میں مسیحیت تیسرا بڑا مذہب ہے۔ ملک میں اقلیتوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے عرصہ ہو گیا لیکن زیادہ سنوائی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں مسیحی اقلیت ملکی آبادی کا تقریباً دو فیصد بنتی ہے۔ روزگار, صحت، تعلیم اور دیگر مسائل میں گھری ان کچی بستیوں کے مکینوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ اس دنیا میں ایک بڑی بات یہ خواہش بھی ہے کہ وہاں رہنے والوں کے بظاہر چھوٹے چھوٹے مسائل ختم ہو جائیں، ایسے چھوٹے مسائل جو بہت بڑے بڑے منفی اثرات کا سبب بنتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔