ماؤں کا عالمی دن اور بلوچستان کی کم عمر ماؤں کی مشکلات
ہر برس مئی کے دوسرے اتوار کو ''ماؤں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو آپ کے لیے بلوچستان کی ماؤں کی حالت زار کی رپورٹ پیش کر رہا ہے۔
’’بلوچستان میں خواتین معاشرے کا وہ استحصالی طبقہ ہیں، جو سب سے زیادہ پستا ہے۔ چاہے کام کاج ہو یا زچگی، یہاں کی خواتین درد کے لا متناہی سلسلوں کو اپنا مقدر سمجھ کر ان کی عادی ہو چکی ہیں۔ پہلے ایک موہوم سی امید ذہن کے گوشوں میں کہیں اٹکی ہوئی تھی کہ شاید کبھی کوئی مسیحا ہماری مسیحائی کو بھی آئے مگر پھر ہمت کر کے میں خود یہ سوچ کر میدان میں اتری کے اپنے حق کے لیے ہمیں خود ہی لڑنا ہو گا‘‘۔ یہ کہنا ہے بلوچستان کی تحصیل گنداخہ کی رہائشی مائی جیوری جمالی کا۔ جمالی اَن پڑھ ہیں مگر 2018ء میں انہوں نے اپنے حلقے سے علاقے کے ایک نامور سردار کے خلاف الیکشن لڑا۔ وہ اگرچہ انتخاب ہار گئی تھیں مگر ان کی جدوجہد سے مقامی خواتین میں یہ احساس بیدار ہوا کہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا کتنا ضروری ہے۔
کرب کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا
انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہمارے علاقے میں عموماﹰ پندرہ، سولہ برس کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور بیس برس تک یہ دو یا تین بچوں کی مائیں بن چکی ہوتی ہیں۔ مگر اس دوران جس کرب، اذیت اور صحت کے سنجیدہ مسائل سے یہ معصوم بچیاں گزرتی ہیں ان کا شاید ہی آپ اندازہ کر سکیں۔‘‘
مائی جیوری جمالی کے بقول ستر ہزار سے زائد کی آبادی کے لیے نہ تو ہسپتال دستیاب ہے اور نہ ہی لیڈی ڈاکٹر، کیس بگڑنے کی صورت میں ایمبیولنس تک نہیں ملتی، جس کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،''میں نے یہ سوچ کر الیکشن لڑا کہ میں کامیاب ہو کر گنداخہ میں ایک میٹرنٹی سینٹر یا ہسپتال تعمیر کرواؤنگی مگر میرا یہ خواب ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔‘‘
کم عمری کی شادی کی مشکلات
مائی جیوری نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا،''علاقے میں نوجوان لڑکیاں حمل اور زچگی کے دوران جس کرب اور اذیت سے گزرتی ہیں اسے دیکھ کر اَن پڑھ افراد بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ کم عمری کی شادی ایک 'جرم‘ہے۔ مگر ہم نہ تو معاشرتی روایات سے بغاوت کی ہمت رکھتے ہیں نہ ہی ہم ماؤں کو صحت کی سہولیات دلا کر ان کے درد کو کم کر سکتے ہیں، ہم سب محض خاموش تماشائی ہیں۔‘‘
طبی سہولیات کا فقدان
حالیہ برسوں میں کی گئی ایک پی ایچ ڈی تحقیق کے مطابق بلوچستان میں 15،16 برس کی عمر میں ماں بننے کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ یہاں تقریبا 6 فیصد لڑکیاں 15 سے 19 برس کی عمر میں ماں بن چکی ہوتی ہیں، جن میں دورانِ زچگی اموات کا خطرہ بڑی عمر کی خواتین سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
ہیلتھ نیوبورن نیٹ ورک کی ڈاکٹر سامعہ رضوان کے مطابق بلوچستان میں تقریبا 28 ہسپتال، 550 بیسک ہیلتھ یونٹس اور 90 زچہ بچہ ہیلتھ کلینکس ہیں، جن میں ماہر اور تجربہ کار گائنا کولوجسٹ کی شدید کمی ہے۔ محض 38 فیصد کیسز ماہر لیڈی ڈاکٹر کے ہاتھوں سر انجام پاتے ہیں جبکہ 55 فیصد سے زائد کو غیر تجربہ کار دائیاں ڈیل کرتی ہیں، جس کی و جہ سے ہر برس بلوچستان میں تقریبا 780 سے 800 خواتین زچگی کے دوران انتقال کر جاتی ہیں۔
تعلیم کی کمی
انہوں نے کہا کہ تعلیم کی کمی کے باعث بہت سی خواتین جن میں اکثریت کم عمر ماؤں کی ہے صحت کے مسائل کی زیادہ آگاہی نہیں رکھتیں اور سمجھتی ہیں کہ ہسپتالوں میں ڈلیوری کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے وہ گھروں پر دائیوں یا مڈ وائف کے ہاتھوں زچگی کو ترجیح دیتی ہیں۔
اس حوالے سے سول ہسپتال کوئٹہ کے ایک انچارج نے (نام نہ ظاہر کرنے کی شرط) پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہاں ایک ڈلیوری کیس میں 12 ہزار تک خرچہ آتا ہے جبکہ پرائیوٹ ہسپتالوں میں یہ رقم لاکھوں میں ہے۔ دور دراز علاقوں تک مڈوائف کی رسائی ایک بہت اچھا پروگرام تھا مگر امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اب مڈ وائف ٹریننگ کے بعد بھی دیہی علاقوں میں جانے پر رضامند ہی نہیں ہوتیں۔
مردوں کی انا اور جہالت
بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈیویلپنٹ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر جویریہ ترین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ بھی ہے۔ دور دراز کے دیہی علاقوں جیسے سبی، نصیر آباد، کیچ اور لورالائی وغیرہ سے جب تک خواتین کو کوئٹہ لایا جاتا ہے تو عموما کیس پہلے ہی بگڑ چکا ہوتا ہے،'' انتہائی پیچیدہ کیسز کو کوئٹہ منتقل کرنے کے ایمبیولنس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، جو غریب خاندانوں کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا مسئلہ مقامی مردوں کی انا اور جہالت بھی ہے۔ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بہت سے دیہی علاقوں کی میٹرنٹی کلینکس میں تعیناتی پر خواتین ڈاکٹرز یا مڈ وائف راضی نہیں ہوتیں لہذا وہاں مرد ڈاکٹرز تعینات ہیں۔ مقامی مرد اِن کے ہاتھوں اپنی خواتین کا آپریشن یا ڈلیوری کروانا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔‘‘۔
کوئٹہ کی معروف گائناکولوجسٹ ڈاکٹرعائشہ صدیقہ کا کہنا ہے،'' اگرچہ صوبے میں صحت کے لیے 34 ارب سے زائد رقم مختص ہے، جن میں طبی عملے اور ڈاکٹرز کی تنخواہوں کی مد میں 22 ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود جمود کا شکار نظامِ صحت اور زچگی کے دوران تیزی سے بڑھتی شرحِ اموات اس امر کا ثبوت ہیں کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہا‘‘۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔