بجلی کے بلوں میں کمی ممکن ہے
توانائی کے امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں جکڑی پاکستان کی حکومت کے لیے بجلی کے بلوں میں فوری اور نمایاں کمی کا فیصلہ آسان نہیں۔
ماہرین کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے حکومت کو طویل المدتی پالیسیوں کو اپنانے، توانائی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کرنے اور سیاسی عزم کے ساتھ بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی کے بلوں میں کمی کیسے ممکن ہے؟
اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر خاقان نجیب نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے توانائی کے شعبے کو حکومتی ڈومین سے نکالنا ہو گا۔ ان کے بقول حکومت کا ہی بجلی خریدنا اور حکومت کا ہی بجلی پیدا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، ''سرکاری مشینری اس کام کو پروفیشنل سرگرمی کے ساتھ نہیں کر رہی اور وہ واجبات کی وصولی اور بجلی کے ترسیلی نقصانات کو روکنے کی بجائے صارفین پر اس کا بوجھ لاد دیتی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ سے بجلی سولر، پانی اور مقامی کوئلے سے بننی چاہیے اور صرف ٹارگٹڈ سب سیڈی ہی دی جانی چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر خاقان کے مطابق صرف پچھلے بیس مہینوں میں دو دفعہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے اور ایک مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتیں بڑھیں ہیں۔ اب تازہ اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ چند ہفتوں بعد کواٹرلی فیول ایڈجسٹمنٹ کے ضمن میں بجلی کی قیمتوں میں تقریبا پانچ روپے فی یونٹ اضافہ ہونے والا ہے، ''اس لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی بجائے دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بجلی کے بلوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ روپے کی قدر میں کمی بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث بنی تھی۔ ان مہینوں میں شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے بجلی کا استعمال بھی بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔
توانائی کے امور کے ایک ماہر خرم شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بجلی کے بلوں کے ذریعے موصول کیے جانے والے متعدد ٹیکس بھی بل کی رقم میں چالیس فی صد اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح تقریبا دس فیصد صارفین بجلی کا بل نہیں دیتے اور بجلی کے ترسیلی نظام کے لائن لاسز بھی تقریبا بیس فی صد کے قریب ہیں، ''فاٹا، پشاور، سکھر اور حیدرآبار سمیت جہاں جہاں بھی لوگ بجلی کا بل ادا نہیں کرتے وہ رقم بھی ان صارفین پر ڈال دی جاتی ہے، جو اپنا بل باقاعدگی سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپریشنل لائن لاسز سے ہونے والا نقصان بھی بجلی کے یہی صارفین ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام بہت ناقص ہے بجلی کی ایک بڑی مقدار لائن لاسز کی نذر ہو جاتی ہے۔ نجی پاور پلانٹس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی وجہ سے ان کو ادا کیے جانے والے کیپیسٹی چارجز بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کی ایک وجہ ہیں۔‘‘
خرم شہزاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پن بجلی زیادہ بننے کی وجہ سے اس سال بجلی کی پیداواری لاگت میں بائیس فی صد کمی ہوئی ہے۔ لیکن کئی دوسرے عوامل کی وجہ سے صارفین کو بجلی مہنگی مل رہی ہے، ''کراچی میں بجلی کا ایک کمرشل یونٹ ٹیکسوں سمیت ستتر روپے کا پڑتا ہے اور بغیر ٹیکسوں میں تریپن روپے کا ہوتا ہے۔‘‘
خرم شہزاد نے بتایا کہ اگر بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کر دیں تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں بیس سے تیس فی صد کمی آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریوینیو میں آنے والی اس کمی کو ان سیکٹرز پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جا سکتا ہے، جو یا تو ٹیکس ہی نہیں دیتے یا پھر بہت ہی کم دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پراپرٹی، زراعت، بیوٹی سیلون اور انفرادی پروفیشنل لوگوں پر ٹیکس لگا کر یہ ہدف با آسانی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ماہر ڈاکٹر خاقان کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کے نام پر خزانے میں جو اربوں روپے پڑے ہیں انہیں استعمال میں لا کر بھی عوام کو کافی ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
خرم شہزاد کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف عوام کو ریلیف دینے سے نہیں روکتا اگر آپ ان کے ساتھ لاجک سے بات کریں ان کو بتائیں کہ ان سے شرائط طے کرتے وقت حالات مختلف تھے اب روپے کی قیمت میں کمی آنے، اور دیگر عوامل کی وجہ سے مشکلات بڑھ چکی ہیں، ''ہم بجلی کے بلوں میں دیے جانے والے ریلیف میں ہونے والے نقصان کو ٹیکس نیٹ بڑھا کر پورا کر لیں گے تو وہ آپ کی بات ضرور سنے کا۔‘‘
توانائی کے امور کے متعدد ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سرکاری اہلکاروں کے لیے مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے سے مسئلے کے دیرپا حل میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی کیونکہ بجلی کی یہ مقدار محدود ہے۔ انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ سینیئر صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فری الیکٹریسٹی کے خاتمے سے عوام کو اس بات کا اطمینان ضرور ہو گا کہ وہ مشکلات کا اکیلے سامنا نہیں کر رہے ہیں، ’’اصل کام یہ ہے کہ ٹرانسمیشن لاسز کم کریں، بجلی چوری روکیں اور بنیادی اصلاحات کریں۔ بجلی میں سولر انرجی اور پن بجلی کی مقدار بڑھائیں۔‘‘
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نجی پاور پلانٹس کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ نجی اداروں کو اپنی بجلی بنانے اور نجی شعبے میں بیچنے کی اجازت ہونی چاہیے اور ملک میں بجلی کے پری پیڈ میٹرز لگائے جانے چاہییں۔
انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ صحافی منصور احمد کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی بنا کر سستی بجلی حاصل کرنے پر اصرار کریں گے تو پاور سیکٹر برباد ہو جائے گا۔ ان کے بقول بلا سوچے سمجھے عوامی مظاہرے ایک سازش ہیں اور ان کے پیچھے تاجروں اور صنعت کاروں کا ایک ٹولہ ہے، جو انہیں فنانس کر رہا ہے، ''اس مسئلے کے حل کے لیے ہم سب کو اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی حکومت اپنی نا اہلی اور غفلت کا ملبہ صارفین پر نہ ڈالے، طاقتور نجی شعبہ ایکسپورٹ کے نام پر بجلی کے شعبے سے رعایتیں لینا بند کرے، اشرفیہ کو مفت بجلی نہی ملنی چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر صارفین کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیے۔ اے سی کو چلا کر جون جولائی کی راتوں میں کمبل اوڑھ کر سونے کی کیا ضرورت ہے۔ بجلی کا ایفیشینٹ استعمال کرنا ہو گا اور ہم سب کو چادر دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانے ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف شہریوں کا احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ فیصل آباد میں ایک مزدور نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر خود کشی کر لی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے بجلی کمپنیوں کے دفاتر کا گھیراؤ کرنے، سڑکوں کو بلاک کرنے اور احتجاجی مظاہروں میں بجلی کے بل جلانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔