’اینشئینٹ ایپوکلپس‘ نامی نیٹ فلکس سیریز، حقیقت یا سازشی نظریہ؟
نیٹ فلیکس پر ایک اس ’شو‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک قدیم عالمی تہذیب کی تباہی کے بعد زندہ بچ جانے والوں نے دنیا کے جنگلی لوگوں کو اپنے علم و حکمت سے روشناس کرایا تھا۔
اس شو میں پیش کئے جانے والے نظریئے کے مطابق آج سے 12000 سال پہلے کی بات ہے جب کرہ ارض برف کے زمانے کے عہد سے گزر رہا تھا تو دنیا پر ایک ایسی قوم آباد تھی جو اپنے رہن سہن میں کافی ترقی یافتہ رہی ہوگی۔ اس قوم کے افراد علم فلکیات، سائنس، فنون لطیفہ اور فن تعمیرات میں ماہر تھے۔ اسی دوران اُن پر ایک بڑی آفت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یوں کہ ایک بڑا شہابئیہ خلاء سے نکل کر زمین سے آ ٹکرایا جس کے نتیجے میں تباہ کُن سیلابوں نے جنم لیا۔ جب گلیشیر پگھلے تو سطح سمندر بُلند ہوگئی اور اس کے پانی نے زمین پر آباد اس ترقی یافتہ عالمی تہذیب کی موجودگی کے تمام نشانات کو تہس نہس کر ڈالا۔ اس انسانی نسل کے چند ایک خوش قسمت لوگ ہی اس تباہی سے محفوظ رہ پائے۔ یہ کہانی آگے یوں چلتی ہے کہ زندہ بچ جانے والے یہ لوگ پوری دنیا میں پھیل گئے اور اُن لوگوں تک جا پہنچے جو جنگل میں گھوم پھر کر اپنی خوراک تلاش کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے طرز زندگی کی حکمت عملی اور دانش آگے جنگلی لوگوں میں منتقل کی جس کے نتیجے میں ان سیکھنے والوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں عظیم عبادت گاہیں اور رصد گاہیں تعمیر کیں جن کی مدد سے وہ نظام فلکی میں جھانکتے تھے اور آنے والی نسلوں کو خلاء سے آنے والی کسی آفت سے خبردار کرتے تھے۔
"Ancient Apocalypse"کے نام سے پیش کئے جانے والا شو نیٹ فلیکس کے مقبول ترین اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگراموں میں شامل رہا تاہم ماہرین آثار قدیمہ اسے سازشی نظریہ قرار دیتے ہیں۔
نومبر کے مہینے کے اختتامی حصے میں سوسائٹی فار امریکن آرکیالوجی (ایس اے اے) نے نیٹ فلیکس کی انتظامیہ کو ایک کھلا خط بھیجا ہے جس میں اُن سے مطالبہ کیا کہ اس پروگرام کا عنوان 'دستاویزی سلسلہ‘ کے بجائے 'سائنس فکشن‘ رکھا جائے۔ اس خط کے ذریعے نیٹ فلیکس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مذکورہ شو کی قسم واضح کرنے کے لیے 'بے بنیاد‘ کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ سوسائٹی آف امریکن آرکیالوجسٹس کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نیٹ فلیکس نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔
فلنٹ ڈیبل ماہر آثار قدیمہ ہیں اور برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس شو کو دیکھ کر آزردہ ہیں، حیران ہیں اور انہیں اتنی مایوسی ہوئی ہے کہ وہ اس پروگرام میں بیان کیے گئے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے 'ٹوئٹر‘ پر ایک طویل تحریر لکھنے پر مجبور ہوگئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پروگرام کے پروڈیوسر گراہم ہینکوک نے 'جو خود ایک صحافی اور سوشیالوجی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ صف اول کے ماہرین آثار قدیمہ کو اس سازشی نظریئے کا حوالہ بنا کر ایک طرح سے انہیں نشانہ بنایا ہے۔ اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ماہرین اس نظریئے کی تائید نہ کرکے عوام سے حقائق پوشیدہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ڈیبل اور بہت سے دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ سر سے پائوں تک جھوٹ پر مبنی ہے۔ ایسے کوئی حقائق موجود ہی نہیں جنہیں چھپایا جائے۔ ڈیبل کا کہنا ہے کہ جس دور کا حوالہ ہینکوک دے رہے ہیں اُس عہد سے تعلق رکھنے والی انسانی بستیوں کی کھدائی کے مقامات اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ضرور موجود ہیں۔ جس کے بارے میں ہینکوک نے 'قدیم انسانی آفت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، کسی بھی انسانی رہن سہن کی باقیات سے اس واقعہ کے جدید عالمی دور سے تعلق کا ثبوت نہیں ملتا، جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
ماہر آثار قدیمہ ڈیبل کی تحقیقی مہارت لوہے اور تانبے کے دور سے متعلق ہے اور وہ یونان میں بہت سے آثار کی کھدائی کے کام میں شامل رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی حالیہ بات چیت کے دوران اس معاملے پر اُن کی ناراضی اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔ انہوں نے ہینکوک کے بہت سے دعوئوں کا جواب دیا۔ اُن کا کہنا تھا، ''پہلی بات یہ ہے کہ یہ کہنا درست نہیں کہ تمام ثبوت سمندر کے نیچے غائب ہوچکے ہیں کیونکہ اس کا رد یہ ہے کہ سمندر کی تہہ میں بہت سے آثار قدیمہ پر کام ہوچکا ہے اور ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سمندر کے نیچے کیا چل رہا ہے‘‘۔
مذکورہ سیریز میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس تہذیب کے زندہ بچ جانے والے لوگوں نے جنگلی لوگوں کو زراعت پر آمادہ کیا اور انہیں کاشت کاری کے لیے استعمال کے قابل فصلوں اور سدھائے جانے کے قابل جانوروں سے متعارف کرایا۔ ڈیبل کا کہنا ہے ''یہ بھی سراسر جھوٹ ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ آخر ہم مختلف قسم کے پودے اور جانور کیوں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر براعظم امریکہ اور مشرقی افریقہ سے لے کر شمال میں ترکی اور نیچے افغانستان کے علاقوں تک غذائی اجناس اور جانور مختلف کیوں ہیں؟ حالانکہ اگر یہ ایک مشترکہ عالمی تہذیب تھی تو ان میں فرق نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہینکوک کی فرضی داستان کوئی نئی چیز نہیں۔ عظیم سیلاب سے قبل عالمی تہذیب کے وجود کا دیومالائی تصور کا تعلق اُس قدیم کہانی سے ملتا ہے جس میں ایٹلانٹس نامی تہذیب کا ذکر ہے جو 200 سال تک اپنی زمین سمیت ادھر اُدھر سمندر پر تیرتی رہی تھی، لیکن یہ نظریہ بارہا غلط ثابت ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں کہ ماہرین آثار قدیمہ اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ان تمام مقامات کی چھان پھٹک کی ہے، مزید یہ کہ ماہرین اس زمانے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوادرات کا جائزہ لے چکے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ہینکوک کے اس دعوے کو بھی سختی سے رد کیا ہے کہ برف کے زمانے کے جنگلی لوگ اتنے سادہ تھے کہ اُن کا فن تعمیر اور سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ برف کے زمانے میں اپنے جسم اور روح کے رشتے کو برقرار رکھنا پیچیدہ مہارتوں اور حکمت عملیوں کے بغیر ممکن ہی نہیں، اور ان مہارتوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کن علاقوں اور کس قسم کی آب و ہوا میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر پیشہ ور ماہرین آثار قدیمہ اس یک طرفہ بحث میں کیوں کود پڑے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دان پہلے ہی امریکا میں 'چیپمن یونیورسٹی‘ کی طرف سے خلائی مخلوقات کے زمین کی جانب سفر اور آسیب زدہ گھروں جیسی غیر مرئی اور تصوراتی چیزوں پر یقین رکھنے کے حوالے سے ایک سروے کے نتائج سے پریشان ہیں، جس سے ظاہر ہوا ہے کہ ان باتوں پر یقین رکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس سروے میں اس عقیدے پر یقین رکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے کہ اٹلانٹس کی تہذیب واقعی وجود رکھتی تھی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قسم کے عقائد لوگوں کو ثابت شدہ سائنسی دانش کو سرے سے رد کردینے پر آمادہ نہ بھی کریں، پھر بھی اس بارے میں لوگوں کو شکوک شبہات میں ضرور مبتلا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبیل اس بارے میں متفکر ہیں اور ''قدیم آسمانی آفت‘ جیسے تصورات کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک بار جب آپ یہ سوچنا شروع کردیں کہ ماہرین آثار قدیمہ غلط ہیں تو پھر آپ یہ بھی کہیں گے کہ ڈاکٹر بھی غلط ہیں، آپ سمجھیں گے کہ سیاست دان جھوٹے ہیں، غرض کوئی بھی چیز آپ کے نزدیک قابل اعتبار نہیں رہے گی۔ ماہرین کو خطرہ ہے کہ بہت جلد لوگ اس سے بھی زیادہ جھوٹے اور لغو سازشی نظریات کا باآسانی شکار ہونے لگیں گے، ایسے نظریات جن کی کوئی توجہیہ ممکن نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔