کیا گیان واپی مسجد کو بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
بابری مسجد تنازعے کے پس منظر میں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اورنگ زیب کی تعمیر کردہ گیان واپی مسجد کا انجام بھی ایودھیا کی بابری مسجد جیسا نہ ہو جسے منہدم کردیا گیا تھا ۔
ہندو قوم پرست اور شدت پسند ہندو جماعتیں بھارت میں درجنوں مساجد کے مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔ متعدد مساجد میں پوجا پاٹ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں اور کئی مساجد کے حوالے سے عدالتوں میں مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ تاہم تازہ ترین معاملہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی تعمیر کردہ بنارس کے گیان واپی مسجد کا ہے۔
ہندوؤں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کا سروے کرانے کی اجازت دے دی تھی جبکہ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پیر کے روز وضو خانے کے حوض کے سروے کا کام مکمل ہوگیا لیکن عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل ہی یہ رپورٹ میڈیا میں لیک کردی گئی۔ مسلم فریق نے اسے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ہندوؤں کے ایک حلقے نے لیک رپورٹ کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ وضو کے لیے جس حوض کا استعمال کیا جاتا ہے، اس میں ''شیو لِنگ‘‘ ملا ہے جبکہ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ وہ دراصل ایک فوارہ ہے، جس کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے اوپری حصے پر ایک لمبا سوراخ بھی موجود ہے جو اس کے فوارہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ شیو لنگ میں اوپر کوئی سوراخ نہیں ہوتا۔
پیر کے روز سروے رپورٹ میڈیا کو لیک کیے جانے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پربعض ہندو تنظیموں اور افراد کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کا طوفان سا آگیا۔ ان بیانات میں گیان واپی مسجد کو منہدم کرنے کے مطالبے بھی کیے گئے۔
شرانگیزی کا آغاز ہوچکا ہے
سماجی کارکنوں، دانشوروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد کے تنازعے کو بھی بابری مسجد تنازعے کی راہ پر ڈالنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد میں رات کے اندھیرے میں بھگوان رام کی مورتی رکھنے کے بعد اس کا مقدمہ تقریباً پچاس برس تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ اس دوران چھ دسمبر 1992 کو انتہاپسند ہندووں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا، جہاں اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پانچ اگست 2020 کواس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
بابری مسجد تنازع پر گہری نگاہ رکھنے والے بھارتی صحافی معصوم مراد آبادی کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے خلاف بھی ایسی ہی شرانگیزیوں کا آغاز ہوچکا ہے جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔
معصوم مرادآبادی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''جس وقت بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کی تحریک چل رہی تھی تو اسی وقت یہ نعرہ اچھالا گیا تھا کہ 'یہ تو ایک جھانکی ہے، کاشی،متھرا باقی ہے‘ لیکن کچھ لوگوں کو یہ اطمینان تھا کہ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے دیے جانے کے بعد ملک میں مندر مسجد کی سیاست ختم ہوجائے گی، لیکن یہ محض ان کی خام خیالی تھی۔‘‘
معصوم مرادآبادی کہتے ہیں، ''بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو جو 'فتح‘ ملی ہے اس سے وہ اتنے اتاولے ہو گئے ہیں کہ انہوں نے ہر مسجد کا انجام یہی سوچ لیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف نئی اور زیادہ خطرناک مہم چھیڑدی گئی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ بھارتی پارلیمان نے 1991میں Place of Worship Act کے نام سے ایک قانون منظور کیا تھا جس کی رو سے 1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی اور اس میں کسی کو کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کا حق نہیں ہوگا۔ لیکن ہندو قوم پرست تنظیمیں اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
بی جے پی کی رہنما اور مدھیہ پردیش کی سابق وزیراعلیٰ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اس قانون کی موجودگی کا مطلب آنے والی نسلوں کے لیے کشیدگی کو برقرار رکھنے کے مترادف ہو گا۔
اس دوران الہ آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ قانون کے خلاف ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سن 2018میں کہا کہ کسی بھی کیس میں اسٹے آرڈر کی مدت صرف چھ ماہ ہوگی اور اس کے بعد حکم نافذ العمل نہیں رہے گا۔ ہندو جماعتوں نے اسی حکم کا سہارا لے کر سن 2019 میں گیان واپی مسجد کے معاملے میں کیس درج کرا دیا تھا۔
’’گیان واپی مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے''
بھارتی رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد کے معاملے کو بھی ٹھیک اسی طرف لے جایا رہا ہے جیسا ایودھیا کی بابری مسجد کے ساتھ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''بابری مسجد کا کیس پہلے عدالت میں لے جایا گیا پھر اسے منہدم کر دیا گیا۔ گیان واپی مسجد کو بھی منہدم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔‘‘
بابری مسجد تنازعے پر کتاب ''ایک رکا ہوا فیصلہ‘‘ کے مصنف اور صحافی پربھاکر مشرا کہتے ہیں،''گیان واپی کے وجود کے سلسلے میں کچھ لوگ اس لیے فکر مند ہیں کیونکہ انہیں اس معاملے میں بابری مسجد کی کرونولوجی یاد آرہی ہے اور ابتدائی دور میں دونوں معاملات یکساں نظر آ رہے ہیں، جس سے لوگوں کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
’مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی‘
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے گیان واپی مسجد تنازعے کے حوالے سے کہا کہ اس کو مندر قرار دینے کی کوشش، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ''گیان واپی مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی۔ 1937میں عدالت یہ بات طے کرچکی ہے کہ اس مسجد کا پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔‘‘
مولانا رحمانی کا کہنا تھا کہ اگر خیالی دلیلوں کی بنا پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا، کیونکہ کتنے ہی بڑے بڑے مندر،بودھ اور جین مت کی عبادت گاہوں کو تبدیل کر کے بنائے گئے ہیں اور ان کی واضح علامتیں موجود ہیں۔
معصوم مرادآبادی کہتے ہیں،''یہ تمام شرانگیزیاں دراصل اقتدار کے گھمنڈ میں چور شرپسندوں کی طرف سے اس لیے کی جا رہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو نیچا دکھائیں اور انہیں ردعمل پر مجبور کریں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔