کیا چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کر رہا ہے؟

نقدی کی کمی سے دوچار پاکستان نے چین سے سی پیک کے پروجیکٹوں کی فنڈنگ میں اضافہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کے مدنظر محتاط دکھائی دے رہا ہے۔

کیا چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کر رہا ہے؟
کیا چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کر رہا ہے؟
user

Dw

ایسے وقت جب چین رواں برس اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کی دسویں سالگرہ منا رہا ہے، اس پہل کے تحت سب سے اہم سرمایہ کاری میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی کوریڈور(سی پیک) میں سرمایہ کاری رکی ہوئی نظر آتی ہے۔

دونوں ملکوں میں سن 2015 میں ہوئے معاہدے کے تحت سی پیک کے ذریعہ ریل اور سڑک رابطوں کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس بنیادی ڈھانچے کے فروغ کا مقصد چینی اشیاء کو سنکیانگ کے علاقے سے پاکستان کے پہاڑی سرحدوں سے گزرتے ہوئے کراچی سے 630 کلومیٹر مغرب میں واقع گوادر بندرگاہ پہنچا کر بحیرہ عرب میں بھیجنا ہے۔ سی پیک میں پاکستان میں توانائی کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھی اربو ں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔


تاہم سی پیک کے فیصلہ ساز ادارے کی جولائی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی میٹنگ کی تفصیلات کے مطابق چین نے حال ہی میں پاکستان کی طرف سے سی پیک کے متعدد منصوبوں کے لیے فنڈ فراہم کرنے کی درخواست پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔

سی پیک میں سست رفتاری کیوں؟

واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر میں جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں،"سی پیک کی سست رفتاری کو اقتصادی اور سکیورٹی دونوں عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران اور چین کی اپنی حالیہ سست رفتاری نے نئے منصوبوں کے امکانات کم کر دیے ہیں۔"


پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ بنیادی ڈھانچہ کے شعبے کا یہ تاریخی منصوبہ ملک کی معیشت کے لیے ' شاہراہ زندگی ' کا کام کرے گا۔ تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے حقیقی نتائج توقع سے بہت کم برآمد ہوں گے۔

کامسٹیس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاکستان چین تعلقات کے اسکالر عظیم خالد کا کہنا تھا کہ، " زیادہ وعدہ اور کم نتائج ایک اہم عنصر بنا ہوا ہے، جس میں صلاحیت کے مسائل اور سیاسی اور سکیورٹی محاذوں پر عدم استحکام شامل ہے۔" عظیم خالد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے سی پیک کے ٹھوس فوائد محدود ہوگئے ہیں، دوسری طرف عوامی قرضوں اور چینی کمپنیوں کو ادائیگیوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔


انہوں نے کہا کہ، "یہ کہنا زیادہ محفو ظ ہے کہ سی پیک کے حوالے بلند بانگ دعوے حقیقت کی عکاسی سے زیادہ پروپیگنڈے کی پیداوار تھے۔ پاکستان کے میڈیا اور دانشوروں کی مدد سے چین نے بھرپور انداز میں اس منصوبے کی مارکیٹنگ کی، جس سے لوگوں کی توقعات میں اضافہ ہوگیا۔" تاہم امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کے خیال میں "سی پیک منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ " کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے جو رفتار سست پڑگئی تھی اس میں اب تیزی آرہی ہے۔"

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا، "یہ سی پیک کے ناقدین ہیں جو غلط طور پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ درحقیقت یہ پاکستان کی سڑک، ریل اور توانائی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنانے اور اس کے رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے بہت بڑا کام ہے۔"


پاکستان کا سیاسی عدم استحکام

اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد سے پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ عمران خان بدعنوانی کے الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جب کہ ایک نگران حکومت آئندہ انتخابات کے انعقاد تک ملک کا نظم و نسق دیکھ رہی ہے۔

کوگل مین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "چین ایک بیرونی سرمایہ کار کے طورپر فطری طور پر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بدامنی اور تشدد کے خطرے کے بارے میں فکر مند ہے، جو پاکستان میں اس کے شہریوں اور مفادات کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ابھی اس بار ے میں واضح نہیں ہونے کی وجہ سے کہ انتخابات کب ہوں گے جو سیاسی غیر یقینی کی صورت حال ہے اس نے چین کو فکر مند کردیا ہے۔کیونکہ اس سے سیاسی غیر یقینی اور عدم استحکام کا ایک غیر مستحکم امتزاج بنتا ہے۔ "


پاکستانی دانشور خالد کا کہنا ہے کہ چین کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے"اہم اور حقیقی تشویش "ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "پاکستان کے سیاسی میدان میں پائی جانے والی صورت حال، جس کے مستقبل قریب میں مستحکم ہونے کا امکان نظر نہیں آتا، چینی پالیسی سازوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں بیجنگ کے اسٹریٹیجک مقاصد ملک کے سیاسی استحکام سے گہرے طورپر منسلک ہیں۔"

چینی ورکرز کے لیے سکیورٹی خطرات

چین بی آر آئی سرمایہ کاری پروجیکٹ کے منصوبوں کو لاحق سکیورٹی خطرات کے متعلق کافی فکر مند ہے، جو نئی سرمایہ کاری اور منصوبوں کی تکمیل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ حالیہ تازہ ترین واقعات میں سے ایک میں پاکستانی فوج نے بلوچستان صوبے میں چینی انجینئروں پر عسکریت پسندوں کے حملے کو ناکام بنادیا تھا۔


سن 2021 میں شمالی پاکستان میں بس پر ہونے والے حملے میں نو چینی ورکرز مارے گئے تھے، چین نے اسے "بم حملہ"قرا ردیا تھا۔ سن 2022میں کراچی میں ایک خودکش بمبار نے چینی ٹیچروں کو ہلاک کردیا تھا۔ حملے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا تھا،'چین پاکستان دوستی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔"

کوگل مین کا کہنا ہے کہ "سکیورٹی خطرات سے چین کی فکر مندیاں بڑھتی جارہی ہیں کیونکہ اسے اب بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ہمیشہ سے موجود بلوچ باغیوں، دوبار سراٹھانے والی پاکستان تحریک طالبان اور نام نہاد آئی ایس (خراسان) شامل ہیں۔


کوگل مین کہتے ہیں کہ، "پاکستان کی جانب سے ان خطرات کو کم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے چین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر صورت حال بدترین ہوئی تو چین، اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لیے اپنی سکیورٹی فورسز کو لانے پر غور کرسکتا ہے، جو کہ اسلام آباد کے لیے سیاسی لحاظ سے نقصان دہ ہوگا۔"

سابق سفیر ملیحہ لودھی کا تاہم خیال ہے کہ "سکیورٹی خدشات تو ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ان پر قابو نہیں پایا جا سکے۔ پاکستان چین کے سکیورٹی خدشات کو دور کررہا ہے جب کہ دوسری طرف وہ دہشت گردانہ تشدد میں اضافے، بالخصوص ٹی ٹی پی سے بھی نمٹ رہا ہے۔"


تجزیہ کار خالد کا کہنا ہے کہ چین "پاکستان کے اندر کام کرنے والے اپنے اہلکاروں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔" انہوں نے کہا، "سی پیک منصوبوں اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوئی بھی خطرہ سی پیک کی پیش رفت میں بڑی حد تک رکاوٹ بن سکتا ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔