ایران نے پھانسی مخالف ٹویٹ پر سوئس سفیر کو طلب کر لیا
سوئٹزر لینڈ کے سفارت خانے نے ایرانی مظاہرین کی پھانسی کی مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، جس پر ایران نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس ٹویٹ میں انقلاب سے پہلے کے ایران کا 'جعلی پرچم' بھی دکھایا گیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ نے ایک ایسی ٹویٹ کے تنازعے پر سوئٹزرلینڈ کے سفیر نادین اولیویری لوزانو کو طلب کیا، جس میں حکومت مخالف تین مظاہرین کی حالیہ پھانسی کی سزا کی مذمت کی گئی تھی۔
گزشتہ جمعے کے روز سوئٹزر لینڈ کے سفارت خانے نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں موت کی سزا دیے جانے کی مذمت کی تھی اور تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سزائے موت کے استعمال کو ''کم کرنے کے لیے اقدامات'' کرے۔
جن تین افراد کو پھانسی دی گئی تھی وہ ان بڑے مظاہروں میں شامل ہوئے تھے، جو نوجوان خاتون جینا مہسا امینی کی موت کی وجہ سے ملک بھر میں پھوٹ پڑے تھے۔ 21 سالہ کرد خاتون پر ایران کے سخت اسلامی لباس کے ضوابط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا اور ستمبر 2022 میں انہیں ایران کی اخلاقی پولیس نے حراست میں لے لیاتھا۔ پولیس کی حراست میں ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کیا کہا؟
ایرانی وزارت خارجہ نے سوئس سفیر کی ٹویٹ کو، ''ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پسندانہ پوزیشن'' قرار دیا۔ ایرانی حکومت نے ٹویٹ میں استعمال کی گئی اس تصویر پر خاص طور پر ناراضی کا اظہار کیا، جس میں مہسا امینی کی حمایت میں احتجاج کو پیش کیا گیا۔ اس تصویر میں کرد خاتون کے ساتھ ہی ایران کا وہ پرچم بھی دکھایا گیا، جو اسلامی انقلاب سے پہلے کا ہے۔
تہران نے ''جعلی پرچم کے ساتھ تصویر کو دوبارہ شائع کرنے پر تہران میں اس ملک کے سفارت خانے کے غیر روایتی اور غیر پیشہ ورانہ چلن کی مذمت کی۔'' ایرانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ''ایسا غیر روایتی اقدام اسلامی جمہوریہ ایران اور سوئس کنفیڈریشن کے درمیان دوستانہ تعلقات سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسے درست کیا جانا چاہیے۔''
واضح رہے کہ پہلے سوئس وزارت خارجہ کی طرف سے انگریزی میں اس پیغام کو شائع کیا گیا تھا، جس کے بعد سفارت خانے نے بھی اپنی ٹویٹ میں اسی مواد کو پوسٹ کیا تھا۔ اصل پوسٹ میں بھی وہی تصویر تھی اور اس کے ساتھ ہی ایک صفحے کا لنک تھا، جس میں ایران میں ہونے والے مظاہروں سے متعلق سوئٹزرلینڈ کے موقف کو واضح کیا گیا تھا۔
سوئٹزر لینڈ نے آخر ٹویٹ کیوں کیا؟
انیس مئی جمعے کے روز ہی ایران نے تین افراد کو پھانسی دینے کی تصدیق کی تھی۔ عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن نے بتایا تھا کہ ماجد کاظمی، صالح میر ہاشمی اور سعید یعقوبی کو مرکزی شہر اصفہان میں ایک مظاہرے کے دوران بندوق تاننے کے لیے ''محربیہ'' یا ''خدا کے خلاف جنگ'' کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا تھا کہ ان افراد نے بسیج پیرا ملٹری فورس کے دو ارکان کو ہلاک کیا جبکہ قانون نافذ کرنے والا ایک اور افسر ریلی کے دوران ہلاک ہو گیا۔ ان تینوں کو جلد ہی گرفتار کر کیگزشتہ جنوری میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان تینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قومی ٹیلیویژن پر انہیں جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ انصاف پر مبنی نہیں تھا اور انہیں دفاع کا مناسب موقع بھی نہیں فراہم کیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔