حجاب یا بلا حجاب، ایران کو نئے انقلاب کی ضرورت ہے، تبصرہ
حجاب یا سر پر دوپٹہ ایرانی حکومت کے زن بیزار نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ نیلوفر غلامی کہتی ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سیکولر ایران کے لیے ایک نئے انقلاب کا آغاز کیا جائے۔
میرے لیے حجاب خوف اور ذلت کی ایک مثال ہے۔ یہ عورت سے نفرت پر مبنی نظام کی ایک علامت ہے، جس کی کوشش معاشرے سے خواتین کے کردار کو ختم کرنا ہے۔ ایک ایرانی خاتون کے طور پر میں نے برسوں تک اپنے سر پر کپڑے کا ایک ٹکڑا اوڑھے رکھا، جو صرف میرے بالوں اور جسم کو ڈھانپنے کا ہی کام نہیں کرتا تھا بلکہ میں اسے خواتین کو دبانے، کنٹرول کرنے اور انہیں دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کرنے کے ایک آلے کے طور پر دیکھتی ہوں۔
دوسرے درجے کے شہریوں والے اس ذلت آمیز سلوک، تکلیف اور خواتین کی خاموشی کو ایران میں اخلاقی پولیس کے مبینہ خاتمے کے بارے میں بحث نے نظرانداز کر دیا ہے۔ کوئی غلطی نہ کریں! حجاب پہننے پر حکومت کا اصرار 1979ء کے انقلاب کے بعد سے موجود ہے۔
گزشتہ عشروں میں خواتین کے حقوق کی اس خلاف ورزی کو نظر انداز کیا گیا اور حکومت کے حامیوں جبکہ مغربی سیاست دانوں سمیت بہت سے لوگوں نے ایران میں حجاب کو ثقافتی مسئلے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ ایسا نہیں ہے۔ میں تیرہ برس کی تھی، جب میرے والد کو انسانی حقوق کی حمایت کرنے کی وجہ سے گرفتار کرتے ہوئے ایوین جیل بھیج دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت کے لیے بھی زیادہ تر ڈھیلے اور سیاہ کپڑے پہننے پڑتے تھے۔
اخلاقی پولیس سے فرار
مجھے تہران میں اخلاقی پولیس کے ساتھ ایک ذلت آمیز مقابلہ یاد ہے۔ میں سرخ کوٹ پہنے ایک دوست کے ساتھ سینما جا رہی تھی۔ یہی وہ رنگ ہے، جس سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ مجھے میٹرو اسٹیشن کے دروازے پر اخلاقی پولیس کی ایک خاتون اہلکار نے اپنی طرف بلایا۔ اس وقت میری سوچ صرف یہ تھی کہ گرفتاری سے کیسے بچا جائے؟ مجھے یاد ہے کہ میں اُس وقت جتنی تیزی سے بھاگ سکتی تھی بھاگی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی ذہن میں تھا کہ میں کیوں بھاگ رہی ہوں؟ میں نے کون سا جرم کیا ہے؟
اخلاقی پولیس کے ساتھ اس مختصر چپقلش کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں تہران کی گلیوں میں چلتے ہوئے اپنے اندر ایک بے چینی محسوس کرنے لگی۔ میں نے 2015ء میں ملک چھوڑ دیا لیکن جبری جلاوطنی کے پہلے چند مہینوں کے دوران بھی میں اس بے چینی کے احساس کو ختم نہ کر سکی۔ میں خوش قسمت تھی کہ ایران سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی لیکن تین ماہ قبل سولہ ستمبر کو اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی بائیس سالہ مہسا امینی بدقسمت نکلی۔
میرے نزدیک ایران میں اخلاقی پولیس کا مبینہ خاتمہ ایک خیالی یا غیر حقیقی بحث ہے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حجاب لازمی ہے اور اسلامی جمہوریہ کے اُن ستونوں میں سے ایک ہے، جو معاشرے کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ اخلاقی پولیس کو ختم کیا جا رہا ہے۔
ایران میں ایک نیا انقلاب
بلاشُبہ اسلامی جمہوریہ کے پاس اخلاقی پولیس کا کوئی متبادل منصوبہ موجود ہے۔ ایک طریقہ کار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صحیح طریقے سے حجاب نہ پہننے والی خواتین کو بعض حقوق اور خدمات سے محروم کر دیا جائے۔ کم از کم سرکاری بیانات سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر اخلاقی پولیس کو بھی ختم کر دیا جائے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایرانی عوام کا مسئلہ حجاب نہیں بلکہ وہ پوری حکومت ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر قائم ہوئی تھی۔ نوجوان نسل کے ذہن میں ایک بڑی تصویر ہے۔ یہ نسل ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری ایران چاہتی ہے، جو مشرق وسطیٰ اور دنیا میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ ایک نئے ایرانی انقلاب کا وقت ہے۔ یہ اُن ایرانی خواتین کو عزت دینے کا وقت ہے، جنہوں نے حجاب کے ساتھ یا اس کے بغیر تبدیلی کے اس عمل کو شروع کیا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔