ایران امریکہ جوہری معاہدے کے قریب تاہم رکاوٹیں برقرار

بائیڈن انتظامیہ ایران جوہری معاہدہ کے حوالے سے تہران کی تازہ پیش کش پر اس ہفتے اپنا رد عمل دے سکتی ہے تاہم فی الحال کوئی بھی فریق اس معاہدے کی بحالی کے لیے کوئی حتمی راستہ پیش نہیں کر رہا ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے یورپی یونین کی جانب سے پیش کردہ مسودے پر ایران کی جانب سے ردعمل پر واشنگٹن بدھ کے روز اپنا جواب دے سکتا ہے۔ جس کے بعد تکنیکی تفصیلات پر مذاکرات ہوں گے اور پھر معاہدے کی نگرانی کرنے والے مشترکہ کمیشن کا اجلاس ہوگا۔

تہران اور واشنگٹن دونوں کی جانب سے عوامی پیغامات رسانی کی مہمات میں جو تیزی آئی ہے اور جو نئی پیش رفت ہوئی ہیں ان سے لگتا ہے کہ جلد ہی جوہری معاہدہ ہوسکتا ہے۔


رکاوٹیں برقرار

لیکن معاہدے کی جانب پیش رفت کے باوجود بہت سی رکاوٹیں برقرار ہیں۔ اور اہم متنازعہ نکات سن 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے میں اربوں ڈالر کی پابندی میں چھوٹ ملی تھی۔

لیکن امریکہ میں معاہدے کے حامی بھی اب اس "طویل اور مضبوط" معاہدے کا ذکر نہیں کر رہے ہیں جو انہوں نے ابتدائی طورپر اس وقت طے کیے تھے جب گزشتہ موسم بہار میں ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ دوسری طرف ایران اپنے خلاف عائد پابندیوں میں امریکہ سے زیادہ سے زیادہ راحت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن واشنگٹن کے لیے ایسا کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔


بائیڈن انتظامیہ کو کانگریس میں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن دونوں کی جانب سے سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پرکافی سیاسی مخالفت کا سامنا ہے، جو یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ، یہ معاہدہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔

ٹیکسس کے ریپبلیکن سینیٹر ٹیڈ کروز کا کہنا تھا، "میں اس تباہ کن معاہدے کے نفاذ کے خلاف منظم انداز میں لڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کروں گا کہ اسے روکا جائے اور بالآخر جنوری 2025 میں اسے الٹ دیا جائے۔"


ٹرمپ انتظامیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے قتل کی سازش کے الزام میں ایک ایرانی پر حال ہی میں عائد فرد جرم اور مصنف سلمان رشد ی پر مبینہ طور پر ایک ایران حامی کی جانب سے حملے نے ایران پر شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تازہ ترین مسودے میں تہران کا یہ مطالبہ شامل نہیں ہے کہ امریکہ ایران کی پاسداران انقلاب فورس کو دہشت گردی کی فہرست سے نکال دے گا۔ ایران اس مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) تین غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے غیر واضح نشانات کی تحقیقات بند کرے۔


ایران کا کیا کہنا ہے؟

ایرانی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا،"معاہدہ دو ہفتے پہلے کے مقابلے میں تکمیل سے زیادہ قریب ہے۔" لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ نتیجہ ابھی بھی غیر یقینی ہے کیونکہ کچھ خلاء باقی ہے۔ ایرانی حکام نے منگل کو اس بیان پر سخت تنقید کی کہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے کے مطالبات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے ایرانی مشیر سید محمد مراندی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پاسداران انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنا کبھی بھی پیشگی شرط نہیں تھی اور انہوں نے اصرار کیا کہ 'آئی اے ای اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے جھوٹے الزامات کی فائل کو مستقل طور پر بند کرنے سے پہلے کسی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔‘


دریں اثنا مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اسرائیل کسی معاہدے کی جانب پیش رفت سے بظاہر بہت خوفزدہ ہے۔

اسرائیل کے متبادل وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کو آگے بڑھانے کی مزاحمت کرے۔ انہوں نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا، "میں صدر بائیڈن اور امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس آخری لمحے میں بھی ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کریں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔