جرمن میں اسلامیات کی تعلیم متعارف کرانےکےخلاف مقدمہ
جرمن صوبے باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی باقاعدہ تعلیم متعارف کرانے کے قانون کے خلاف آئینی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مضمون کو متعارف کرانے کی آئینی شرائط پوری نہیں کی گئیں۔
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے جمعرات آٹھ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے باویریا میں قائم بینچ میں اس مقدمے کے دائر کیے جانے کی عدالت کی ایک ترجمان نے تصدیق کر دی۔
ترجمان کے مطابق اس آئینی درخواست میں معروف ماہر تعلیم ایرنسٹ گُنٹر کراؤزے، باویریا میں فکری آزادی کی تنظیم، اس کی میونخ میں قائم شاخ اور جوردانو برونو فاؤنڈیشن نامی ادارے کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم متعارف کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی آئین کے تحت وہ شرائط پوری نہیں کی گئیں، جن سب کا ایسے کسی پارلیمانی فیصلے کے دوران پیش نظر رکھا جانا لازمی تھا۔
اسلامیات، ایک اختیاری مضمون
اس مقدمے کے دائر کیے جانے سے صرف ایک روز قبل منگل چھ جولائی کی شام میونخ میں باویریا کی صوبائی پارلیمان نے فیصلہ کیا تھا کہ ریاستی اسکولوں میں اسلامی علوم کی تعلیم کا ایک ایسا اختیاری مضمون متعارف کرایا جانا چاہیے، جس کا طلبا و طالبات اگر چاہیں تو اپنے لیے آزادانہ انتخاب کر سکیں۔
اس پارلیمانی رائے دہی میں اسلامی علوم کی تعلیم کو باویریا کے اسکولوں میں ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر لیکن فی الحال ایک ماڈل کی حیثیت سے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلے کا مقصد صوبے کے تقریباﹰ 350 اسکولوں میں نوجوان طلبا و طالبات، خاص کر مسلمان بچے بچیوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ سماجی علوم میں اخلاقیات کے مضمون کے علاوہ اگر چاہیں تو اپنے لیے اسلامیات کا انتخاب بھی کر سکیں۔
مخالفین کا موقف کیا ہے؟
یہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں سرکاری ملازمین کے طور پر بھرتی کیے گئے اساتذہ کی طرف سے جرمن زبان میں دی جائے گی اور نصاب کی تیاری میں کلیدی اقدار کے لحاظ سے جرمنی کے بنیادی قانون اور باویریا کے آئین کے تقاضوں کا پیش نظر رکھا جانا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون سازی کے خلاف مقدمے میں درخواست دہندگان نے موقف یہ اپنایا ہے کہ اس پارلیمانی فیصلے میں شفافیت اور بنیادی وضاحتوں کی کمی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی بارے میں جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی طرف سے بھی کہا جا چکا ہے کہ وہ بھی اس صوبائی قانون سازی کے خلاف وفاقی آئینی عدالت میں جائے گی۔
پارلیمانی فیصلہ 'بہت بڑا سنگ میل‘
میونخ میں اس قانون سازی کی جزوی مخالفت کے باوجود باویریا میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کی صوبائی نگران اہلکار گُودرُون برینڈل فشر نے اس پارلیمانی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''نصابی حوالے سے یہ اقدام باویریا میں مسلمان برادری کے مزید بہتر سماجی انضام کی کوششوں میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہو گا۔‘‘
ساتھ ہی برینڈل فشر نے مسلم طلبا و طالبات کے والدین کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
کئی سال سے جاری بحث
باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر متعارف کرانے سے متعلق بحث کئی سال پرانی ہے۔ شروع میں اسے 'اسلامی اقدار سے آگاہی‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ تعلیم ترک زبان میں دی جاتی تھی۔
اب لیکن اسے 'اسلامیات کی تعلیم‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ مضمون بچوں کو جرمن زبان میں پڑھایا جائے گا۔ صوبائی وزارت تعلیم کے مطابق اب تک یہ مضمون ایک ماڈل پروجیکٹ کے تحت باویریا کے 364 پرائمری اور مڈل اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔
مستقبل میں تاہم اسے ہائی اسکولوں میں بھی پڑھایا جا سکے گا اور اس سال موسم خزاں سے باویرین اسکولوں میں بچے اپنے لیے اسلامیات بطور اختیاری مضمون باقاعدہ منتخب کر سکیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔