فرانس نے شام کے صدر بشار الاسد کی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیا
سن 2013 کے ایک مجرمانہ کیمیائی حملے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، کی تفتیش کے بعد فرانس نے صدر بشار الاسد اور تین دیگر شامی شہریوں کے خلاف بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ جاری کیے ہیں۔
فرانسیسی عدلیہ کے ایک ذرائع اور اس کیس کے استغاثہ نے بتایا کہ فرانس نے شامی صدر بشار الاسد، ان کے بھائی اور شام کی ایلیٹ فوجی یونٹ کے عملاً سربراہ ماہر اسد اور دو آرمی جرنیلوں غسان عباس اور باسم الحسن کے خلاف سن 2013 کے کیمیائی حملوں کے سلسلے میں ایک بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیا ہے۔
شامی صدر کے خلاف جاری ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ ہے۔ ان پر الزام ہے کہ ان کی فورسز نے سن 2011 میں شروع ہونے والے مظاہروں کو بہیمانہ انداز میں کچل دیا تھا، جسے اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق جنگی جرائم کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
یہ وارنٹ انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات سے متعلق ہیں۔ عدالتی ذرائع کے مطابق اگست 2013 میں دمشق کے نزدیک دوما قصبے اور مشرقی غوطہ کے علاقے میں کیمیائی حملوں کے نتیجے میں 1000سے زائد فراد ہلاک ہو گئے تھے۔
انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق پیرس کی عدالت کا یونٹ سن 2021 سے کیمیائی حملوں کی تفتیش کر رہا ہے۔ فرانس دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پردائرہ اختیار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
یہ تفتیش ایک غیرسرکاری تنظیم سیریئن سینٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم ایکسپریشن (ایس سی ایم)، وکلاء کی تنظیم اوپن سوسائٹی جسٹس انیشی ایٹیو(او ایس جے آئی) اور شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویز بندی کرنے والے ایک ادارے سیریئن آرکائیوکی جانب سے دائر کی گئی قانونی شکایتوں کے بعد ہوئی۔ سینٹر کے ڈائریکٹر مازن درویش نے کہا کہ وارنٹ جاری کیا جانا "سن 2013کے حملوں کے متاثرین، ان کے اہل خانہ اور بچ جانے والوں کے لیے ایک نئی فتح ہے۔"
شام میں کیمیائی حملے
اگست 2013میں شامی اپوزیشن کے کارکنوں نے یوٹیوب پر ویڈیوز پوسٹ کی تھیں جن میں مشرقی غوطہ میں کیمیائی حملوں کے اثرات دکھائے گئے تھے۔ ان ویڈیوز میں زمین پر پڑی درجنوں لاشوں کی تصویریں بھی شامل تھیں، جن میں سے بیشتر بچوں کی تھیں۔
ان مناظر کی وجہ سے عالمی غم و غصے اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعد میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ ان حملوں میں سارین گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ شام نے سن 2013میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے متعلق تنظیم، او پی سی ڈبلیو، میں شمولیت اختیار کی اور اپنے تمام کیمیائی ہتھیاروں کو ترک کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
او پی سی ڈبلیونے اس کے بعد سے خانہ جنگی کے دوران دمشق کو متعدد کیمیائی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ شامی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بعدمیں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شام کے خلا ف قانونی کارروائیوں کا آغاز ہوا ہے۔ دریں اثنا ہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف(آئی سی جے) شامی حکومت کے ذریعہ مبینہ طورپر اذیت دینے کے کیسز کے متعلق آج جمعرات کو اپنا فیصلہ سنائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔