ایران کی بدنام زمانہ اوین جیل کے اندر کی جھلک
ایران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں حال ہی میں آتشزدگی کا ایک واقعہ پیش آیا۔ اس جیل کے دو سابق قیدیوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں جیل میں خود پر گزرنے والے حالات بیان کیے۔
ایرانی دارالحکومت تہران کی اوین جیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے لیے بدنام ہے اور اس کی منفی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ حال ہی میں اس جیل کے ایک حصے میں آگ لگی تو کم از کم آٹھ قیدی ہلاک ہو گئے۔
انوشہ آشوری ایک ایرانی نژاد برطانوی تاجر ہیں، جو اوین جیل میں چار سال سے زیادہ عرصے سے قید تھے۔ ان چار میں سے دو سال انہوں نے جیل کے اس حصے میں گزارے، جہاں ایرانی حکام کے مطابق آگ لگی تھی۔ انوشہ کو 2017 ء میں اپنی والدہ سے ملاقات کے لیے ایران کے دورے کے دوران 'اسرائیل کے لیے جاسوسی‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنی گرفتاری کے بارے میں کہا، ''میں مکمل صدمے میں تھا۔ میں سر سے پاؤں تک بے حس ہو چکا تھا۔ مجھے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کیا ہو رہا تھا اور مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو اوین جیل کے وارڈ نمبر سات کے ہال نمبر 12 میں نظربندی کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے ناگوار حالات اور بدسلوکی کے بارے میں بتایا، ''ہال نمبر 12 میں صورتحال انتہائی تشویش ناک تھی۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی تھی، بستروں میں کھٹملوں، کاکروچوں، بڑے بڑے چوہوں اور گندے کھانے کے خلاف۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ہال نمبر 12 میں صرف چار کمروں میں 70 افراد کو رکھا گیا تھا۔
آشوری نے وارڈ نمبر سات کے تہہ خانے میں 'ثقافتی مرکز‘ کے نام سے جانے جانے والے ایک بڑے کمرے، جس میں ایک سوئمنگ پول ہوا کرتا تھا، کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس جگہ کو کپڑے کی فیکٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں قیدی جیل کی یونیفارم تیار کرنے کے لیے سلائی مشینوں پر کام کرتے تھے۔ آشوری نے کہا کہ ممکن ہے کہ سلائی کے کمرے میں ہی آگ لگی ہو، لیکن اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔
آشوری ثقافتی مرکز کے باہر دھات کی بنی سیڑھیاں یاد کرتے ہیں، جو ایک خوبصورت نقطہ نظر کی طرف لے جاتی تھیں۔ ان کے بقول، ''کبھی کبھی ہم اپنا دوپہر کا کھانا وہاں لے جاتے تھے کیونکہ وہ ان چند جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں آپ تہران کے شمال میں واقع الُبرز پہاڑوں کو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
نفسیاتی اذیت
اوین جیل میں انوشہ آشوری کے بدترین تجربات کی تفصیلات ان 45 دنوں کی ہیں، جو انہوں نے قید تنہائی میں گزارے۔ وہ بتاتے ہیں، ''میرے پاس ایک مرکزی تفتیش کار آتا تھا، لیکن زیادہ تر وقت میں چھوٹے تفتیشی کمروں میں دیگر تفتیش کاروں کی موجودگی کو محسوس کر سکتا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''وہ دھمکیاں دیتے رہتے تھے کہ وہ میرے خاندان کے افراد کو نقصان پہنچائیں گے۔‘‘
آشوری نے کہا کہ انہیں دن اور رات بہت تیز روشنی میں رکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ نیند سے محروم رہتے تھے ۔ ان کے بقول انہیں دوسرے سیلز سے مسلسل رونے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ درد اور اپنے خاندان کو لاحق سلامتی کے خطرات کے خوف نے انہیں خودکشی تک کی کوشش کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہا، ''میں نے سوچا، شاید بہترین طریقہ یہ ہے کہ میں موجود ہی نہ رہوں، تو خطرہ مٹ جائے گا۔‘‘ آشوری نے اپنی غیر منصفانہ گرفتاری کے خلاف 17 دن تک بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
مارچ 2022ء میں برطانوی حکومت کی جانب سے ایرانی حکومت کو 400 ملین پاؤنڈ ) 461 ملین یورو یا 453 ملین ڈالر) کا قرض ادا کرنے کے بعد آشوری کو اوین جیل سے رہا کیا گیا۔ انہیں ایک اور دوہری شہریت کی حامل ایرانی نژاد خاتون نازنین زغاری ریٹکلف کے ساتھ رہا کیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں اپنے تجربے اور ایران میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔
دو اکتوبر کو آشوری نے لندن میراتھن میں حصہ لیا اور اپنے سینے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کا پوسٹر پہنا اور ایرانی خواتین کے حقوق کی تحریک کی طرف توجہ مبذول کرنے والے فلائرز اٹھا کر وہ خواتین کی اس تحریک کا بھرپور ساتھ دیتے بھی دکھائی دیے۔ وہ کہتے ہیں، ''جب میں دوڑ رہا تھا، تو میں ان تمام دوستوں کا تصور کر رہا تھا، جو جیل کے اس چھوٹے سے صحن میں میرے ساتھ بھاگتے تھے، یوں جیسے وہ بھی یہاں میرے ساتھ ہی تھے۔ میں ان سے اونچی آواز میں باتیں کر رہا تھا۔ میں اپنے وہ احساسات بیان نہیں کر سکتا۔ یہ احساس کتنا تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ لوگ اب بھی اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ انہیں کب رہا کیا جائے گا۔‘‘
اوین جیل میں آگ لگنے کے بارے میں سن کر آشوری نے کہا کہ ان کا دماغ اور دل ان لوگوں پر مرکوز ہیں، جن سے ان کی اوین جیل میں قید کے دوران شناسائی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے، جب تک ان سب کو رہا نہیں کیا جاتا اور وہ سب اپنے اپنے اہل خانہ کے پاس اپنے گھروں کو نہیں لوٹ جاتے۔
ایئر پورٹ جاتے ہوئے اغوا
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب سے پہلے بھی اوین جیل کو سیاسی قیدیوں، غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کو قید رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ایران میں 'اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ایک نوجوان خاتون کی صحیح طریقے سے حجاب یا اسلامی اسکارف نہ پہننے کی وجہ سے موت کے بعد شخصی آزادیوں کے لیے احتجاج کی لہر شروع ہو جانے کے بعد ابھی تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔
ایک لبنانی تاجر نزار زکا، جو 2015ء میں اوین جیل میں قید تھے، حالیہ بدامنی کے دوران وہاں گزرے ہوئے اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہیں کہ وہ ایک ایسے دن کا تصور کرتے ہیں، جب اس جیل میں بند افراد کو 'مظاہرین کے ذریعے آزاد کرا لیا جائے گا‘۔ زکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں مردوں کے ایک گروپ نے اس وقت اغوا کر لیا تھا، جب وہ ایرانی حکومت کی دعوت پر تہران میں خواتین اور خاندانی امور کی ایک کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد ہوائی اڈے کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے بقول، ''میں زبان نہیں جانتا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو رہا تھا۔‘‘
زکا نے چار سال اوین کی جیل میں گزارے، ان پر امریکہ کے لیے جاسوسی کا الزام تھا، جہاں کے وہ مستقل رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اوین جیل کے وارڈ نمبر سات میں بہت بھیڑ رہتی تھی، جہاں 20 افراد 5 مربع میٹر کے کمرے میں اکٹھے رہتے تھے۔ حکام چاہتے تھے کہ وہ ٹی وی پر اعتراف جرم کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''تفتیش کرنے والا ہر چھ ہفتے بعد آتا تھا، پوچھتا تھا کہ کیا میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں کچھ نہیں کہتا تھا اور وہ مجھے واپس بھیج دیتا تھا۔‘‘ نزار زکا کے مطابق بعض اوقات پوچھ گچھ زیادہ پرتشدد ہوتی ہے۔ ''جب آپ ان کے سوالوں کے جواب نہیں دیتے، تو وہ آپ کو ایک غیر آرام دہ حالت میں کھڑا کر دیتے ہیں، اس وقت تک جب تک آپ تھک کر بےہوش نہ ہو جائیں۔ پھر وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے گھومنے لگتے ہیں، اور آپ کے ہاتھ پر پیر رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘
'میں دیواروں کے گرنے کا خواب دیکھوں گا‘
زکا نے 18 ماہ قید تنہائی میں بھی گزارے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قید کے خلاف متعدد بھوک ہڑتالیں کیں۔ زکا نے کہا کہ انہیں آٹھ مربع میٹر کے ایک گندے کمرے میں رکھا گیا تھا، جس کی بلب ہمیشہ جلتا رہتا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''آپ کے پاس کچھ نہیں۔ اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لیے صرف ایک کمبل جیسی چیز ہے۔ ہمیں ہر طرح کی انفیکشنز ہوئیں، کیونکہ زیادہ تر تکیے اور کمبل گندے ہوتے ہیں اور کیڑے مکوڑوں سے بھرے ہوئے۔‘‘ زکا کا مزید کہنا تھا، ''مجھے یاد ہے کہ وہ مجھے آدھی رات کو لے گئے۔ میں کسی سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ اکتوبر اور نومبر میں سردی تھی اور ہمیں موزے پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے پاس صرف ہوائی چپل ہوتی تھی اور باہر جانے کے لیے بھی بس یہی پہننے کی اجازت تھی۔ یہ انتہائی اذیت ناک تجربہ تھا۔‘‘
جون 2019 ء میں ایرانی حکومت نے لبنانی صدر میشل عون کی درخواست پر زکا کو رہا کیا، برسوں کی بین الاقوامی وکالت کے بعد۔ زکا نے اس کے بعد سابق سیاسی قیدیوں کے ایک گروپ کے ساتھ قیدیوں کی وکالت کرنے والی این جی او Hostage Aid Worldwide قائم کی تاکہ یہ کوشش کی جا سکے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔
نزار زکا کہتے ہیں، ''جب میں اوین میں تھا، میں خواب دیکھتا تھا کہ شاید کوئی بہت بڑی آگ لگ جائے، شاید کوئی تباہ کن زلزلہ آ جائے، تمام دیواریں گر جائیں اور ہم سب بھاگ کر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔‘‘ ''میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن یہ خواب سچ ثابت ہوگا اور تمام قیدی ایک دن مظاہرین کے ہاتھوں آزاد ہو جائیں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔