بھارت: مردوں کے لیے مانع حمل انجکشن کا کامیاب تجربہ
بھارت میں طویل عرصے تک موثر، مردوں کے لیے مانع حمل انجکشن کا تجربہ مکمل ہو گیا ہے۔ بھارت کے سرکاری ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے ذریعہ تیار کردہ اس انجکشن کو پوری طرح محفوظ پایا گیا ہے۔
مردوں کے لیے ایک موثر مانع حمل کی تیاری کا خواب پورا ہوگیا ہے۔ بھارت میں بایو میڈیکل ریسرچ کے اعلیٰ ترین ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے بتایا کہ اس نے دوا کے تجربات کے تمام تینوں مراحل مکمل کرلیے ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایک انجکشن 13سال تک مانع حمل کا کام کرسکتا ہے اور اس کے بعد اس کے اثر کو پوری طرح پلٹا بھی جاسکتا ہے۔
اس انجکشن کا نام Reversible Inhibition of Sperm under Guidance یا RISUG رکھا گیا ہے۔ اسے بھارت کے موقر تعلیمی ادارے آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے پروفیسر ڈاکٹر سوجوئے کمار گوہا نے ڈیولپ کیا ہے۔
یہ دوا کیسے کام کرتی ہے؟
بھارتی میڈیا میں شائع رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر گوہا کا تحریر کردہ آر آئی ایس یو جی پر پہلا سائنسی مقالہ سن 1979 میں شائع ہوا تھا۔ یعنی اس کا تجربہ مکمل ہونے میں 40سال سے بھی زیادہ کا عرصہ لگا۔ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی اوپن ایکسس والی جرنل اینڈرولوجی میں اس تجربے کے نتائج شائع ہوئے ہیں۔ جن میں بتایا گیا ہے کہ آر آئی ایس یو جی کو مادہ منویہ والی رگوں میں انجکشن کے ذریعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں موجود پالیمر رگوں کی اندرونی دیوار سے چپک جاتا ہے۔
یہ پالیمر جب مادہ منویہ کے رابطے میں آتا ہے تو ان کے پچھلے حصے کو تباہ کردیتا ہے، جس سے اسپرم عورت کے بیضہ دانی میں موجود انڈوں کو فرٹیلائز کرکے حمل ٹھہرانے کی اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ آر آئی ایس یو جی نے 303 مردوں پر اس کا تجربہ کیا اور سات سالوں تک ان کی اور ان کی بیویوں کی صحت پر نگاہ رکھی گئی۔ اور ان میں کسی طرح کے منفی اثرات نہیں پائے گئے۔
یہ تمام مرد صحت مند، شادی شدہ اور جنسی عمل کے لحاظ سے سرگرم تھے اور ان کی عمر 25 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ انہیں 60 ملی لیٹر آر ایس یو جی دی گئی۔ یہ تجربات نئی دہلی، جے پور، اودھم پور، کھڑگ پور اور لدھیانہ میں واقع ہسپتالوں میں کیے گئے۔ اس تجربے کے لیے مالی امداد بھارت کی وزارت صحت نے فراہم کی۔
مارکیٹ میں لانا ایک چیلنج
تجربے کے دوران آر ایس یو جی کی مانع حمل صلاحیت 99.02 فیصد پائی گئی اور اس کوئی سنگین سائیڈ ایفکٹ بھی نہیں پائے گئے۔ اس کی ناکامی کی شرح بھی کنڈوم کے پھٹ جانے کی شرح سے کم پائی گئی۔ حالانکہ بعض مردوں میں بخار، سوجن، پیشاب کی نالی میں انفکشن جیسے کچھ مسائل پائے گئے لیکن ان پر بھی چند ہفتوں سے لے کر تقریباً تین ماہ کے دوران قابو پالیا گیا۔
آر ایس یو جی کا تعلق ہارمون سے نہیں ہے اس لیے جسم کے دیگر حصوں پر اس کا کسی طرح کا کوئی اثر نہیں پایا گیا۔ ریسرچ میں شامل ڈاکٹر آر ایس شرما کا کہنا ہے کہ یہ دوا بازار میں لانے کے لیے ریگولیٹری کی اجازت ملنے کے بعد اس کے لیے دوا بنانے والی کمپنی تلاش کرنا بھی چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی دوا کمپنی اتنی موثر دوا فروخت کرنا نہیں چاہے گی، بالخصوص مردوں کے لیے، جو فیملی پلاننگ میں شامل ہونے سے بچتے رہتے ہیں۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ آر ایس یو جی کو ریگولیٹری کی اجازت کب ملتی ہے اور دوا کب اور کیسے مارکیٹ میں آتی ہے۔ کتنے مرد اس دوا کو استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کریں گے، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔