آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور پاکستانی شہروں کا مستقبل

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہروں پر آبادی کا بے تحاشہ دباؤ بڑھ رہا ہے۔ معاشی زبوں حالی کے دور میں آبادی میں اضافہ کا مطلب مسائل کا ایک اضافی انبار ہے۔

آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور پاکستانی شہروں کا مستقبل
آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور پاکستانی شہروں کا مستقبل
user

Dw

اسلام آباد کے نواح میں واقع بنی گالہ دیہی علاقہ سمجھا جاتا تھا اور چند سال قبل تک یہاں کی آبادی بہت کم تھی۔ اس علاقے کے رہائشی اڑسٹھ سالہ محمد جمیل خان کا کہنا ہے کہ اب اس علاقے میں بڑی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ کار تیزی سے گھر بنوارہے ہیں جب کہ سر سبز کھیت اور میدان اب رہائشی کالونیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں کے قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔

اسلام آباد کی ایک اور مضافاتی کچی آبادی مہر آباد کے رہائشی لال خان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں بھی دن بہ دن تعمیرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں کے رہائشی چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر ڈبل اسٹوری مکانات بنارہے ہیں۔ ایک ایک گھر میں نو، نو افراد رہ رہے ہیں اور علاقے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی صرف ان دو افراد کے مشاہدے میں ہی نہیں آئی ہے بلکہ عالمی تنظیمیں بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھی میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔


اقوام متحدہ کی رپورٹ

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسیفک ریجن میں شہروں کی آبادی 2050 تک 3.4 ارب ہو جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی شہروں کی صورتحال بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر بہت ابتر ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت اس ریجن میں شہروں کی آبادی 2.5 ارب ہے، جو نفس صدی تک ممکنہ طور پر تین اعشاریہ چار ارب ہو جائے گی، جس کی وجہ سے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی شہری مسائل بہت بڑھ جائیں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر جرائم، آلودگی، غربت، معاشرتی نا ہمواری اور دیگر مسائل میں اضافہ ہوگا جبکہ شہری انفراسٹرکچر پر بھی شدید دباؤ آئے گا۔ ایشیا پیسفک کے شہروں کے مستقبل کے حوالے سے 2023ء میں جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خطےکی 650 ملین آبادی غیر منصوبہ بند آبادیوں یا کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ یہاں شہروں کی ایک بہت بڑی تعداد ساحل سمندر کے قریب آباد ہے، جسے بدلتے ہوئے موسم، سیلاب اور بلند ہوتی ہوئی سمندری پانی کی سطح جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔


کچی آبادیوں میں اضافہ

اس صورتحال کے پیش نظر نصف صدی تک پاکستان کے شہری علاقوں کی کیا صورتحال ہوگی۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے ماہرین کی آراء جانیں، جنہوں نے پاکستان کے شہری علاقوں کا انتہائی مایوس کن نقشہ پیش کیا۔ سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ شہری آبادی میں اضافہ کچی آبادیوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر قائم کی گئیں یہ غیر قانونی کچی آبادیاں نہ صرف شہری مسائل میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ اکثر جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بھی بن جاتی ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ آبادیاں اکثر غیر قانونی طور پر قائم کی جاتی ہیں اور یہاں رہنے والے افراد کا متعلقہ اداروں کے پاس رہائشی ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ آبادیاں چھوٹی اور تنگ گلیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں جرائم پیشہ افراد کے لیے جوئے، شراب اور منشیات کے اڈے کھولنا آسان ہو جاتا ہے۔ ان کا کوئی باقاعدہ نقشہ نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کے لئے وہاں آپریشن کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘


معاشی خستہ حالی

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہروں میں بے روزگاری بڑھے گی اور حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا۔ شاہد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' شہروں کو انجن آف گروتھ کہا جاتا ہے لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے، جب شہر کی دیکھ بحال کی جائے اور اس کے انفراسٹرکچر کے لیے کام کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ کام نہیں ہورہا۔ لہذا تمام شہربڑھتی آبادی کی وجہ سے خستہ حالی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘

شاہد محمود کے مطابق معاشی ترقی کی سست رفتار کی وجہ سے شہروں کی آبادی کو بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی میں شدید مشکلات ہوں گی، جس کا مطلب ہے کہ یہ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر صرف بوجھ ہی ہوگی۔


پاکستان میں شہری آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اورکچھ اندازوں کے مطابق یہ جنوبی ایشیا میں سب سے تیز اضافہ ہے۔ 1981ء میں ملکی شہری آبادی کی شرح مجموعی آبادی میں28.30 فیصد تھی، 1998ء میں یہ شرح 32.52 فیصد، 2017ء میں 36.38 فیصد جب کہ 2022 میں یہ شرح 38.82 فیصد ہوگئی۔ شاہد محمود کا خیال ہے کہ شہری علاقوں کی آبادی کئی بنیادوں پر کم دکھائی جاتی ہے۔ ''بحریہ ٹاون اور کئی جدید ہاوسنگ سوسائٹیاں شہری طرز پر تعمیر ہوئی ہیں لیکن جغرافیائی طور پر وہ دیہاتوں میں ہیں۔‘‘

کراچی چارضلعوں سے پہلے ہی سات ضلعوں تک پہنچ گیا ہے۔ کراچی میں مقیم شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کے ارد گرد ہریالی اور سبزہ پہلے ہی ختم ہو گیا ہے اور کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر مذید پھیلے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جغرافیائی طور پر کراچی پہلے ہی گھارو، ٹھٹہ، جامشورو اور نوری آباد تک پہنچ گیا ہے اور اسی طرح اگر یہ آبادی بڑھتی رہی تو کراچی کی جغرافیائی وسعت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔‘‘


کئی اندازوں کے مطابق کراچی میں پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں خستہ اور غیر معیاری عمارتیں ہیں۔ عارف حسن کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کچی آبادیوں میں اس طرح کی مزید عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔ '' لوگ کچی آبادیوں کے اندر ہی دو دو، تین تین، چار چار منزلہ گھر بنائیں گے، جو کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجے میں انتہائی تباہ کن ثابت ہوں گے۔

کراچی میں ایک ہیکٹر پرغریب علاقوں میں تقریباﹰ 2500 افراد رہتے ہیں جبکہ امیر علاقوں میں یہ شرح تقریبا 80 سے 90 افراد کی ہے۔ جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے 2050ء تک غریب علاقوں میں فی ہیکٹر لوگوں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا۔‘‘


بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور لسانی کشیدگی

پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن معاشی ترقی کی شرح انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے وسائل کی کمی ہوگی اور عوام کے لیے مشکلات ہوں گی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وسائل کی کمی اور شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی لسانی کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔

اسلام اباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فاطمہ نور کا کہنا ہے کہ کراچی اور کوئٹہ لسانی اعتبار سے کشیدگی کی طرف جا سکتے ہیں۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی سیاسی طور پر کشیدگی ہو سکتی ہے۔ کراچی میں سندھی، مہاجر پختون اور دوسری کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس شہر کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور وسائل سکڑ رہے ہیں۔‘‘


ڈاکٹر نور فاطمہ کے مطابق بالکل اسی طرح کوئٹہ پر پختون اور بلوچوں دونوں کا تاریخی دعویٰ ہے۔ '' بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وہاں بھی ان کمیونٹیز میں اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ پنجاب کے بہت سارے شہروں میں پختون آباد ہورہے ہیں، اگر ہم نے اسی رفتار سے وسائل کو نہیں بڑھایا تو یہاں بھی کمیونٹیز میں تلخیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘

ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ پنجاب کے سرائیکی شہروں میں بھی پنجابی سرائیکی اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ ''سرائیکی پہلے ہی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کا الگ صوبہ بنایا جائے۔ سکڑتے ہوئے وسائل کے پیش نظر جب انہیں روزگار یا کاروبار میں مسائل ہوں گے تو اس صوبے کے نعرے میں مزید تیزی آئے گی، جس سے وہاں پر رہنے والی دوسری کمیونٹیز کے ساتھ ان کے اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔