پاکستان: 'دیت‘ کے نام پر قاتلوں کو کیسے معاف کر دیا جاتا ہے
جنوری 2018ء میں میڈیکل اسٹوڈنٹ عاصمہ رانی چھٹی پر اپنے گھر کوہاٹ گئی ہوئی تھیں۔ ایک دن عاصمہ اور ان کی بھابی گھر واپس جا رہی تھیں کہ دو افراد نے ان پر فائرنگ کی ۔ عاصمہ کو تین گولیاں لگیں۔
مرنے سے قبل عاصمہ نے اپنے حملہ آور کا نام مجاہد اللہ آفریدی بتایا۔ یہ وہ شخص تھا جس کی شادی کی پیشکش عاصمہ نے ٹھکرا دی تھی۔ آفریدی کی تلاش شروع ہوئی لیکن وہ ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ کچھ ہی روز بعد اُسے متحدہ عرب امارات میں گرفتار کر لیا گیا اور اسے پاکستان بھیج دیا گیا جہاں اس کے خلاف کیس تین سال چلا۔ اس سال 2021ء میں عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ آفریدی جلد رہا ہو جائے گا۔
حال ہی میں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ عاصمہ رانی کے خاندان نے لکی مروت کے علاقے میں ایک تقریب میں آفریدی کو ''معاف'' کر دیا ہے۔ اور ایک جرگے کے سامنے یہ معافی دی گئی۔ عاصمہ کے خاندانی وکیل سید عبدالفیض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عاصمہ کے قاتل کو معافی دے دی گئی ہے اور اس معافی نامے کو عاصمہ کے والدین نے عدالت میں جمع کر وا دیا ہے۔ وکیل کے مطابق اگر عدالت اس معافی نامے کو قبول کر لیتی ہے تو آفریدی کی رہائی ممکن ہو جائے گی۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن خاور ممتاز کا کہنا ہے کہ خواتین کے تشدد کے حوالے سے کیسز میں اکثر مجرمان رہا ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ملک کے وہ قوانین ہیں جو معافی نامے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ قوانین اسلامی قانون '' قصاص'' سے متاثر ہیں۔ اس قانون کے تحت قاتل کو سزائے موت تو ہو سکتی ہیں لیکن ''دیت‘' کے ذریعے متاثرہ خاندان کو رقم ادا کر دی جاتی ہے اور ایسی صورت میں متاثرہ خاندان مجرم کو معاف کر سکتا ہے۔ اور پاکستانی عدالتیں اس معافی نامے کو قبول کر سکتی ہیں۔
پاکستان کا قانونی نظام شریعہ سے متاثر ہے۔ قانون میں ایسی شقیں بھی ہیں جہاں رقم کی ادائیگی کے بغیر بھی معافی دی جاسکتی ہے۔ اکثر خاندان اللہ کے نام پر مجرموں کو معاف کر دیتے ہیں۔ عاصمہ رانی کے خاندان کے وکیل کے مطابق عاصمہ کے آبائی علاقے میں سزائے موت کے اکثر مقدمات میں معافی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان کے غیرت کے نام پر قتل کے 2016 ء کے بل کے تحت اسے دہشت گردی یا 'اونر کلنگ‘ کے کیسز کے مقدمات پر لاگو کرنا ممکن نہیں ہے۔ خاور ممتاز کے کہنا ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کا اکثر غیر قانونی استعمال کیا جاتا ہے۔
خاور ممتاز کے مطابق اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ معافی دباؤ، زبردستی یا بلیک میل کے ذریعے دلوائی جاتی ہے۔ اور جب عدالت کی جانب سے سزا سنا بھی دی گئی ہو تب بھی متاثرہ خاندان پر معافی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔
عاصمہ رانی مستقبل کی ڈاکٹر ہوتی ایک نوجوان زندگی صرف اس لیے اس دنیا سے چلی گئی کیوں کہ اس نے ایک شخص کی شادی کی پیشکش ٹھکرائی تھی۔ ایسے بہت سے واقعات میں قاتل کو یہ اکثر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قانونی گرفت میں نہیں آئے گا اور اگر آ بھی گیا تو 'قصاص یا دیت' کہ باعث وہ سزا سے بچ جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔