ایران: 'ہیڈ اسکارف نہیں تو ملازمت نہیں'

ایران کی اخلاقی پولیس کی خلاف ورزی کرنے اور سر پر اسکارف کے بغیر عوامی مقامات پر جانے والی ایرانی اداکاروں پر کام کرنے کی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مخالفین کو بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

ایران: 'ہیڈ اسکارف نہیں تو ملازمت نہیں'
ایران: 'ہیڈ اسکارف نہیں تو ملازمت نہیں'
user

Dw

اکتوبر کے اواخر میں ایران کی وزارت ثقافت "وزارت فرہنگ و ارشادات اسلامی" نے ان اداکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جن کو سر پر اسکارف کے بغیر عوامی مقامات پر جانے کی وجہ سے انہیں اپنے کام سے روک دیا گیا تھا۔ ثقافت اور اسلامی رہنمائی کے وزیر محمد مہدی اسماعیلی کا کہنا ہے کہ حجاب کے لازمی قانون کی پابندی نہ کرنے والوں کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس فہرست میں اب تک تقریباً 20 نام شامل ہیں جن میں ترانے علی دوستی جیسی عالمی شہرت یافتہ فنکار بھی ہیں۔39 سالہ علی دوستی نے سن 2016 میں بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم "دا سیلز مین" میں کام کیا تھا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اصغر فرہادی نے سن 2017 میں غیر ملکی زبان کی بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ جیتا تھا۔


سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر گرفتار

علی دوستی بیرون ملک دوروں کے دوران بھی عوامی تقریبات میں سر پر اسکارف نہیں پہنتی تھیں، لیکن نومبر 2022 میں اس وقت سب کچھ بدل گیا جب مہسا امینی کی موت کے بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔22 سالہ مہسا امینی کو ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس نے اسلامی طرز لباس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا اور بعد میں پولیس حراست کے دوران ہی ان کی موت ہوگئی تھی۔

ترانے علی دوستی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹا گرام پر سرپر اسکارف کے بغیر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی۔ ان کے فالوورز کی تعداد 80 لاکھ سے زیادہ ہے۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کاغذ کی ایک پرچی پکڑے ہوئے ہیں جس پر ایرانی خواتین کے حقوق کی تحریک اور حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نعرہ "عورت، زندگی، آزادی" لکھا ہوا ہے۔


تصویر پوسٹ کرنے کے فوراً بعد علی دوستی کو گرفتار کرلیا گیا اور دوستوں اور خاندان والوں کی جانب سے ضمانت لینے کے بعد ہی دو ہفتے بعد رہا کیا گیا۔ اپنی ملازمت پر پابندی عائد کردیے جانے کے متعلق انہو ں نے سوشل میڈیا پر لکھا،"میں ہیڈ اسکارف کے آپ کے حکم کی تعمیل نہیں کروں گی،جس سے ابھی تک میری بہنوں کا لہو ٹپک رہا ہے۔"

عوامی مقامات پر سر کو اسکارف سے نہ ڈھانپنا ایران میں خواتین کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے، جیسا کہ بدقسمتی سے 17سالہ ارمیتا گراوند کی حالیہ موت سے ثابت ہو چکا ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں یہ نوعمر لڑکی اسکارف کے بغیر اسکول جارہی تھی۔ تہران میٹرو میں سفر کے دوران نام نہاد اخلاقی پولیس نے اس پر حملہ کردیا جس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی۔ سرمیں شدید چوٹ کے باعث اسے ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں وہ کوما میں چلی گئی اور بعد میں اسے برین ڈیڈ قرار دے دیا گیا۔ ارمیتا کو 29اکتوبر کو سپرد خاک کردیا گیا۔


نوجوان ایرانی خواتین برہم

دارالحکومت تہران سے تعلق رکھنے والی ایک ایرانی طالبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم جب سر پر اسکارف کے بغیر گھر سے باہر نکلتی ہیں تو ہر روز اپنی جان خطرے میں ڈالتی ہیں۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ بہت سی اداکارائیں بھی اب اسکارف پہنتی ہیں۔" انہوں نے اس حوالے سے 18اکتوبر کو قتل کردیے جانے والے ایرانی ہدایت کاردریوش مہر جوئی اور ان کی اہلیہ اسکرین پلے رائٹر وحیدہ محمدیفر کے جنازے میں شرکت کرنے والے فلمی دنیا کے افراد کی جانب اشارہ کیا۔

دونوں اکتوبر کے وسط میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ کسی نے انہیں چاقو مار کر ہلاک کردیا تھا۔ فلم انڈسٹری اور عوام کا بڑا طبقہ اس جوڑے کی قتل سے حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ حالانکہ حکومت نے ان کے ایک سابق ملازم پر قتل میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے لیکن عوام کو اس پر یقین نہیں ہے۔


ایران میں دیگر بہت سے فلم سازوں کی طرح مہر جوئی کی بھی اکثر ریاستی حکام کے ساتھ ان بن ہوتی رہتی تھی۔ مارچ 2022 میں جب ان کی آخری فلم "لا مائنر" سینسر ہوئی، تو 83 سالہ فلم ساز نے وزارت ثقافت پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا،" مجھے مارڈالو، میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو... مجھے تباہ کردو، لیکن میں اپنے حقوق چاہتا ہوں۔"

ان کی تدفین کے وقت کئی معروف اداکاراوں نے سر پر حجاب ڈال رکھے تھے۔ حجاب کے لازمی حکم کی خلاف ورزی کرنے والی واحد خاتون 18 سالہ مونا مہر جوئی تھی، جو مقتول جوڑے کی بیٹی ہیں۔


'مزاحمت کی بھاری قیمت'

اداکارہ شعلے پکروان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،" میں جانتی ہوں کہ نوجوان نسل ہم سے ناراض ہے۔ میری نسل قدامت پسند اور محتاط ہے۔" اسٹیج اداکارہ اور مصنفہ پکروان 2017 سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ تین سال قبل ان کی بیٹی ریحانہ جباری کو ایران میں اس شخص کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی، جس نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔

شعلے پکروان نے اپنی بیٹی کی جان بچانے کے لیے طویل اور سخت قانونی جدوجہد کی لیکن کامیاب نہیں ہوئیں۔ اب وہ دوسرے متاثرین کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا،"میں جانتی ہوں کہ اس وقت ایران میں مزاحمت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ اگر آپ غائب کردیے جانے سے بچنا چاہتے ہیں تو جھجھک کے باوجود سر پر اسکارف ڈالیں۔"


انہوں نے مزید کہا کہ "انہیں یقین نہیں کہ ایران میں مزاحمت ختم ہوگئی ہے۔ دراصل اس کی شکل بدل گئی ہے اور یہ نئی شکلوں میں دوبارہ نمودار ہو گی۔ گزشتہ سال ایران میں جو کچھ ہوا اسے صاحبان اقتدار کبھی ختم نہیں کرسکتے۔ انہیں اب خواتین کی ایک نوجوان اور بہادر نسل کا سامنا ہے، جنہیں معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں: آزادی اور ظلم کا خاتمہ۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔