شریعہ قوانین کے مختلف پہلو

براعظم افریقہ میں شریعہ قوانین کی تشریحات بھی مختلف ہیں اور ان کی حوالے سے آراء اور رویے بھی۔ صومالیہ جیسے ممالک اسے قبول اور سینگال جیسے ممالک اسے مسترد کر چکے ہیں ۔

شریعہ قوانین کے مختلف پہلو
شریعہ قوانین کے مختلف پہلو
user

Dw

غیر مسلموں کے لیے شریعہ قوانین کے مطلب ہے سخت سزائیں، عدم برداشت اور اخلاقی پولیس خصوصاﹰ خواتین پر غیر ضروری پابندیاں، مگر ماہرین کے مطابق براعظم افریقہ میں جھانکا جائے، تو کئی معاملات میں حالات اس سے مختلف ہیں۔

شریعہ کیا ہے؟

اسلامی تعریف کے مطابق شریعہ کا مطلب ہے حقوق اور فرائض کا وہ نظام جو کسی مسلمان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو، جس میں خلوت اور جلوت سے جڑے تمام رویے شامل ہیں اور خاندانی اور کاروباری معاملات بھی۔ اس حوالے سے احکامات مختلف ذرائع سے آتے ہیں، جن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے علاوہ پیغمبر کی سنت اور احادیث شامل ہیں۔ شرعی قوانین، اسلامی شریعہ کی تشریحات سے کشید کیے جاتے ہیں۔


سب صحارن افریقہ میں اسلامی قوانین

سب صحارن افریقہ میں اسلامی قوانین کس انداز کے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں شریعہ تشریحات مختلف ہیں اور یہ وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر قوانین بھی مختلف ہیں۔ جرمنی کی لائپزگ یونیورسٹی کے اسلامی قوانین کے شعبےکے پروفیسر حاتم ایلیسی کے مطابق، ''ظاہر ہے مختلف افریقی ممالک کے اسلامی رویے مختلف ہیں اور اسی تناظر میں اسلامی قانون کی اسا مختلف تشریحات کی بنیاد پر قائم ہے جب کہ ان قوانین کے نفاذ کے طریقہ ہائے کار بھی متنوع ہیں۔

شریعہ دستور کا حصہ

متعدد افریقی ممالک مثلاﹰ صومالیہ اور موریطانیہ نے شریعہ کو اپنے دستور کا حصہ بنا رکھا ہے۔ سن 2012 میں بننے والے صومالی دستور کے مطابق، ''ملک میں کوئی قانون یا ضابطہ اسلامی تعلیمات یا شریعت کے خلاف نہیں بن سکتا۔‘‘


تاہم اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ صومالیہ ایران یا سعودی عرب کی طرز کی سخت ترین سزائیں دینے والی ایک 'اسلامی ریاست‘ ہے۔ صومالیہ میں اسلامی قوانین کے متوازی قانونی نظام موجود ہے۔ امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق صومالیہ میں کوئی سرکاری شریعہ ادارے موجود نہیں اور یہاں شریعہ عموماﹰ ایک ''غیررسمی‘‘ سا کردار ادا کرتی ہے۔

مکس ماڈل

افریقہ میں متعدد ایسے مسلم اکثریتی ممالک جنہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی حاصل کی، سیکولر عدالتی نظام کے حامل ہیں۔ ان ممالک میں کئی مواقع پر 'شریعہ عدالتوں‘ سے اضافی کام لیا جاتا ہے، تاہم یہ زیادہ تر 'شخصی امور‘ سے جڑا ہوا ہے مثلاﹰ شادی، طلاق، بچوں کی نگرانی یا وراثت کی تقسیم۔


مثال کے طور پر کینیا کے عدالتی نظام میں مسلمانوں کو ''ذاتی امور‘‘ میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ قاضی عدالت میں جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کا نظام گمبیا اور یوگنڈا میں بھی قائم ہے۔

سیکولر مسلم ریاستیں

افریقی تنوع میں دوسری طرف سینگال اور برکینافاسو جیسی ریاستیں شامل ہیں۔ ان مغربی افریقی ممالک میں سیکولر قانونی نظام رائج ہے اور شریعہ عدالتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی حالاں کہ ان ممالک میں اکثریت مسلمانوں کی آباد ہے۔ سینگال میں بہت سے لوگ شادی اور طلاق جیسے معاملات میں اپنے طور پر مساجد کے اماموں سے رجوع کر لیتے ہیں۔


سینگال کے سیاسیات کے شعبے کے ماہر باکارے سامبے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''ریاستی عدالت ان معاملات میں اس لیے کوئی معنی خیز کام نہیں کر سکتیں، کیوں کہ ریاست سیکولر ہے جب کہ آبادی مذہبی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔