مشرقی جرمنی کا ’غیر اخلاقی‘ ادب

سابق جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر) میں کمیونسٹ حکمرانوں نے ایک پڑھا لکھا معاشرہ پروان چڑھایا، لیکن ادب پر بھاری قدغنیں بھی لگائیں۔

مشرقی جرمنی کا ’غیر اخلاقی‘ ادب
مشرقی جرمنی کا ’غیر اخلاقی‘ ادب
user

Dw

کہا جاتا ہے کہ مشرقی جرمنی، یا جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر) کے لوگ ٹالسٹائی کی ''وار اینڈ پیس‘‘، بوکاکیو کی ''ڈیکامرون‘‘ اور ہیوگو کی ''دی ریچڈ‘‘جیسی کلاسک تصانیف سے لے کر سائنس فکشن میں ان مقامات کے بارے میں پڑھنا پسند کرتے تھے جو سفری پابندیوں کی وجہ سے صرف تصور میں ہی دیکھے جا سکتے تھے۔

سیاست نے ا ُس معاشرے میں سماجی زندگی کے بہت سے دوسرے شعبوں کی طرح اس ادبی انتخاب کا حکم بھی دیا، جسے مشرقی جرمنی پر حکمران کمیونسٹ پارٹی کنٹرول کرتی تھی۔


پڑھی لکھی قوم

بیرونی دنیا کے سامنے، جی ڈی آر نے خود کو ایک پڑھی لکھی قوم کے طور پر پیش کیا، جس نے ادب کے استعمال کے شوق کو اجاگر کرنے کے لیے ''لیزے لینڈ ڈے ڈے ار‘‘ (ریڈنگ نیشن جی ڈی آر) کی اصطلاح وضع کی۔ وائمر شہر میں مشہور جرمن شاعروں گوئٹے اور شلر کی یادگاروں کو برقرار رکھا گیا، ان کی تخلیقات کو فخر کے ساتھ جی ڈی آرکے ثقافتی اثاثوں کے طور پر پیش کیا گیا۔

مشرقی جرمنی میں کمیونسٹ آمریت کے مطالعہ کے لیے قائم فیڈرل فاؤنڈیشن کی طرف سے منعقد ہونے والی نمائش ''لیزے لینڈ ڈے ڈے ار‘‘ کے مصنف اور کیوریٹر اشٹیفان وولے لکھتے ہیں، ''وہ ادب کے لیے کتنا شاندار وقت تھا۔ کتابوں کی دکانوں کے سامنے گاہکوں کی قطاریں لگ گئیں اور کتابوں کے بازار ادب سے محبت کرنے والوں سے بھر گئے۔‘‘


''لیکن دوسری طرف، وہ کتنا خوفناک وقت تھا، جب ہر طباعت شدہ لفظ سخت سنسر شپ کے تابع تھا،‘‘ انہوں نے مزید کہا،''پارٹی لفظ کی دنیا کو بدلنے والی طاقت پر یقین رکھتی تھی اور ساتھ ہی شاید غیر ضروری طور پر تنقیدی متن کے اثر سے ڈرتی تھی۔‘‘

ایک طرف ادب کی پرورش کے درمیان ابہام اور دوسری طرف چھوٹی سی سنسرشپ، ''لیزے لینڈ ڈے ڈے ار‘‘کا مرکز ہے۔ مشرقی جرمنی میں روزمرہ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے، برلن کی نمائش میں 20 پینل شامل ہیں ، جو یہاں آنے والوں کو دیوار کے پیچھے ایک روشن ادبی سفر پرکے لیے مدعو کرتے ہیں۔اگرچہ یہ نمائش جزوی طور پر ملک کے مصنفین کے بارے میں ہے، لیکن یہ بھی دکھاتی ہے کہ کس طرح شہریوں نے پڑھنے کے ذریعے دنیا کو اپنے لیے کھولا ، بشمول ان جگہوں کے جہاں وہ سفر نہیں کر سکتے تھے۔


تاریخ دان اور فاؤنڈیشن کے عملے کے ایک رکن اُلرش مہلرٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نمائش ان لوگوں کی بہادری کی کہانی ہے جنہوں نے ہمیشہ اس لٹریچر کو حاصل کرنے کے طریقے تلاش کیے جو وہ درحقیقت پڑھنا چاہتے تھے۔‘‘

مشرقی جرمنی کے نوجوانوں کی تربیت

جی ڈی آر میں ہر بچے کی کتابوں کی الماری میں ممکنہ طور پر الفونز سیٹر باکے، یا الفی کے بارے میں جلدیں شامل ہوتی تھیں، جو ایک روشن خیال اور دلیر لڑکا تھا اور وہ خلاباز بننا چاہتا تھا۔ یہ کہانیاں دیوار برلن کے گرنے سے بچ گئیں اور مغرب میں بھی مقبول ہوئیں۔


مہلرٹ کے مطابق، الفی جی ڈی آر کی یوتھ پالیسی کا آئینہ دار تھا،''کہانی کا تعلیمی پیغام یہ ہے کہ کائنات کے راستے پر کوئی بھی تنہا نہیں نکل سکتا۔ فرد کو اپنے آپ کو اجتماعیت کے تابع کرنا ہے۔‘‘

جی ڈی آر کے نوجوانوں کی کتابوں کی الماریوں میں رکھے مواد کی باریک بینی سے چھان بین کی جاتی تھی۔ڈونلڈ ڈک اور انکل اسکروج پر مشتمل کامکس، گینگسٹر کہانیاں، یا مغرب کے رومانوی ناولوں کو غیر اخلاقی ادب سمجھا جاتا تھا۔ اسکول میں تھیلیوں کی جانچ پڑتال کوئی معمولی بات نہیں تھی: جو بھی ممنوعہ لٹریچر اسمگل کرتا تھا اسے کلاس رجسٹر میں نوٹ کیا جاتا تھا — یا والدین کو بات کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔


جنگ کے فوراً بعد کے دور میں جی ڈی آر نے سب سے پہلے نازی ادب پر ​​پابندی عائد کی۔ لیکن جلد ہی مغرب کی وہ کتابیں جو حکومت کے ساتھ سیاسی طور پر ہم آہنگ نہیں تھیں،یا کمیونسٹ نظریات سے اختلاف کرنے والوں کے لٹریچر کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔کچھ لائبریریوں نے نام نہاد 'زہر آلود الماریاں‘ بنا رکھی تھیں اور ان میں پڑا لٹریچر صرف خصوصی اجازت کے ساتھ ہی حوالے کے طور پر ہی استعمال کیا جاسکتا تھا۔

مغرب میں جی ڈی آر ادب

کرسٹا وولف اور دیگر اختلافی ادیبوں کے ادب کا مغرب نے جوش و خروش سے استقبال کیا۔ دیوارکے اُس پار یعنی مغرب میں جی ڈی آر ادب کے بارے میں تصور نامی ادارے سے تعلق رکھنے والے وولے نے کہا۔''ایک سیاسی معیار لاگو کیا گیا تھا۔جی ڈی آر میں حکام جس چیز سے ناخوش ہوتے تھے وہ دراصل دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ اُن موضوعات پر اخبارات کے کلچرل صفحے پر کی جاتی تھی۔‘‘


وولے کے مطابق اگرچہ جی ڈی آر اب موجود نہیں، تاہم یہ ان لوگوں میں رہتا ہے جو اس میں آباد تھے۔ انہوں نے کہا، '' وہ سابقہ ملک خود کو بار بارکتابوں، فلموں اور کہانیوں کے ذریعے پیش کرتا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔