آبادی میں اضافے کے لیے نیا ایرانی قانون ’حقوق نسواں کے منافی‘
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایران کا ملکی آبادی میں اضافے کے لیے نیا قانون خواتین کے حقوق کے منافی ہے۔ یہ قانون ایرانی خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت کے تقاضوں کی نفی کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ تہران حکومت کو یہ نیا قانون بلاتاخیر منسوخ کرنا چاہیے اور اس کی ان تمام شقوں کو ختم کرنا چاہیے، جو ایرانی عورتوں کے بنیادی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا باعث بنیں گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نیا قانون شوریٰ نگہبان کہلانے والے ملکی ادارے کی طرف سے یکم نومبر کو منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کو 'ملکی آبادی میں نوجوانوں کے تناسب میں اضافے اور خاندانوں کی مدد کے بل‘ کا نام دیا گیا ہے۔
نفاذ کی مدت سات سال
اس قانون کے تحت صحت عامہ کے ایرانی نظام میں مردوں یا عورتوں کی نس بندی اور مانع حمل ذرائع کی مفت تقسیم کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اب یہ دونوں کام یا ان میں سے کوئی ایک بھی صرف اسی صورت میں کیا جا سکے گا، جب کسی خاتون کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو جانے کا خدشہ ہو۔
یہ قانون فی الحال سات سال کے لیے نافذ رہے گا اور اس میں ان پابندیوں کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے، جو ایران میں پہلے ہی اسقاط حمل اور مانع حمل ذرائع تک رسائی کے حوالے سے نافذ ہیں۔
اس قانون کی شوریٰ نگہبان کی طرف سے منظوری سے قبل ملکی پارلیمان نے اس سال 16 مارچ کو اسے منظور کیا تھا۔ اب یہ قانون حتمی دستخطوں کے بعد ملک کے سرکاری گزٹ میں شائع ہوتے ہی نافذالعمل ہو جائے گا اور ایسا ممکنہ طور پر اسی مہینے ہو جائے گا۔
تہران حکومت پر الزام
ہیومن رائٹس واچ کی ایران کے بارے میں سینیئر ریسرچر تارا سہ پہری کہتی ہیں، ''ایرانی قانون ساز ملکی عوام کو درپیش حکومتی نااہلی، بدعنوانی اور ریاستی جبر جیسے سنجیدہ مسائل حل کرنے سے کتراتے ہیں اور اس کے برعکس وہ خواتین کے بنیادی حقوق پر مسلسل حملے کرتے جا رہے ہیں۔‘‘
تارا سہ پہری کے مطابق، ''ملکی آبادی میں اضافے کا نیا قانون ایران کی مجموعی آبادی کے نصف حصے کی صحت، بنیادی حقوق اور شخصی وقار کی نفی کرتا ہے اور خواتین کو اب ان تولیدی صحت سے متعلق بنیادی سہولیات اور ضروری معلومات تک رسائی سے بھی روک دیا گیا ہے۔‘‘
نئے قانون سے کیا ہو گا؟
ایران میں اس نئے قانون کے ساتھ بچوں والے گھرانوں کے لیے کئی نئی مراعات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مثلاﹰ حاملہ خواتین اور بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی خواتین کو روزگار کے باعث ملنے والی مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس امر کا کوئی حل نہیں نکالا گیا کہ ایرانی خواتین کو روزگار کی ملکی منڈی کا عملی حصہ بننے سے زیادہ تر روک دیا جاتا ہے اور ملازمتیں دینے کے حوالے سے عورتوں سے کیا جانے والا امتیازی سلوک بھی ختم نہیں ہوا۔
اس قانون کی شق نمبر 17 کے تحت ملکی معیشت کے تمام شعبوں میں خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد نو ماہ تک مکمل تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے گی۔ اس کے علاوہ دوران حمل کوئی بھی خاتون چار ماہ تک گھر سے کام کر سکے گی۔ مزید یہ کہ سات سال سے کم عمر کے بچوں کی مائیں اس صورت میں بھی اپنی جائے روزگار سے چھٹی لے سکیں گے، جب ان کو اپنے بچوں کو علاج کے لیے کسی ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہو۔
محفوظ اسقاط حمل تک رسائی مزید مشکل
نئے قانون کی کئی شقیں ایسی ہیں، جو خواتین کے لیے طبی طور پر محفوظ اسقاط حمل کے امکانات کو مزید کم کرنے کے لیے شامل کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اس قانون کی شق نمبر 56 کے تحت ملکی وزارت صحت ایک ایسی کمیٹی بنائے گی، جس میں ڈاکٹر، اسلامی قانون کے ماہرین، عدلیہ کے نمائندے اور قومی پارلیمان کی صحت سے متعلق کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہوں گے اور جو ایسے نئے ضابطے تشکیل دے سکے گی، جن کے بعد حاملہ خواتین کے لیے قانونی اسقاط حمل کروانا مشکل تر ہو جائے گا۔
انٹیلیجنس کی وزارت اور دیگر ایجنسیوں کا کردار
اسی قانون کے تحت انٹیلیجنس امور کی ملکی وزارت اور دیگر ایجنسیوں کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد یا اداروں کی شناخت کر کے ملکی عدلیہ کو مطلع کریں گے، جو ''غیر قانونی طور پر اسقاط حمل کرتے ہوں یا جنہوں نے اس مقصد کے لیے مراکز کھول رکھے ہوں یا جو اسقاط حمل کے لیے استعمال ہونے والی ادویات فروخت یا مہیا کرتے ہوں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کے خدشات
انسانی حقوق کی بین الاقوامی سطح پر سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اسی قانون کے تحت ایسے ثقافتی مواد کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، جو آبادی سے متعلق حکومتی پالیسیوں کے برعکس ہو۔ مزید یہ کہ ایران میں زیادہ تر قانون سازی بہت مبہم اور ڈھیلے ڈھالے انداز میں کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے قانون کے غلط استعمال کا احتمال بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
ان حقائق کی بنیاد پر ہیومن رائٹس واچ کو خدشہ ہے کہ ایران میں آبادی میں اضافے کے لیے یہ نیا قانون بھی خاص طور پر خواتین کے ساتھ امتیازی سماجی رویوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ نیا قانون واضح طور پر ایسی خواتین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، جو شادی نہ کرنا، کم بچوں کو جنم دینا یا اسقاط حمل کروانا چاہتی ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔