اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا 75 سالہ اعلامیہ جرمنی کے لیے چیلنج کیوں؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آج سے 75 سال قبل انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا تھا۔ جرمنی ایک ایسے وقت میں یہ دن منا رہا ہے جب انسانی حقوق کو لاحق خطرات نے اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا 75 سالہ اعلامیہ جرمنی کے لیے چیلنج کیوں؟
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا 75 سالہ اعلامیہ جرمنی کے لیے چیلنج کیوں؟
user

Dw

رواں برس کے شروع میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے چین کا دورہ کیا تھا۔ تب انہوں نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ چین میں ہونے والے سلوک کے سلسلے میں نصیحت کی۔

چینی وزیر خارجہ چِن گینگ نے اس تبصرے پر قدر ناخوشگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، انا لینا بیئربوک کو جواب دیا، ''چین کو مغرب کے استاد‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ''عالمی معیارات‘‘ موجود ہیں۔ بیئربوک نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ وہ دستاویز ہے جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو منظور کیا تھا۔


اب جرمن وزیر خارجہ اس دستاویز میں درج اصولوں کو لاحق خطرات سے چوکنا ہو گئی ہیں۔ اس کا اظہار انہوں نے جرمنی کی گرین پارٹی کے قانون سازوں کے ایک اجتماع کو یو این ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان میں کیا۔ جرمن وزیر کا کہنا تھا، ''عالمی انسانی حقوق اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔‘‘انہوں نے اس موقف کی مخالفت کی کہ ''انسانی حقوق سیاست کے لیے صرف اس صورت میں اہم ہیں جب کوئی اور مسئلہ درپیش نہ ہو۔‘‘

دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے صرف تین سال بعد نافذ ہونے والے اس اعلامیے کے پہلے آرٹیکل میں اس کے مقاصد کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے، ''تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں۔‘‘


جرمن وزیر خارجہ کے لیے، یہ دستاویز 75 سال بعد جرمن خارجہ پالیسی کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے چیلنجز جیسے کہ مشرق وسطیٰ اور یوکرین سے لے کر سوڈان تک کے باوجود، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو سالگرہ منانے کی اہم وجوہات نظر آئیں ۔ فولکر تُرک نے ایک بیان میں کہا، ''انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ایک معجزاتی متن ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تباہ کن واقعات کا شکار نظر آ رہی ہے، یہ اعلامیہ عالمی حقوق کا تعین کرتا ہے اور ہر شخص کی مساوی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔‘‘

فولکر تُرک نے مزید کہا، ''اس اعلامیے کے تمام تیس 30 آرٹیکلز نے ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ نسل پرستی، بدانتظامی، عدم مساوات اور نفرت کے انگاروں سے ہماری دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی طرف سے لگائے گئے تازہ ترین تخمینے کے مطابق اس وقت دنیا بھر 110 ملین پناہ گزین ہیں اور 735 ملین افراد ایسے ہیں جن میں سے ہر کسی کے پاس کافی خوراک موجود نہیں ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پچاس ملین لوگ اس وقت جدید غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔


جنوبی جرمن ریاست باویریا کی یونیورسٹی آف ایئرلانگن میں انسانی حقوق کے شعبے میں ایک پروفیسر، ہائنر بیلفیلٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مجموعی طور پر، صورت حال ایک سنگین تصویر پیش کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''آمرانہ حکومتوں کی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ قائم جمہوریتوں کے اندر مطلق العنان رجحانات نے نہ صرف دھچکے لگائے ہیں بلکہ یہ مکمل طور پر تباہی کا سبب بنے ہیں۔‘‘

پروفیسر، ہائنر بیلفیلٹ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے قوانین کے نفاذ کے ناقص ہونے کے باوجود کچھ پیش رفت دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری۔ روس تاہم، عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اور یوکرین پر حملے کے لیے وہاں صدر پوٹن کے ساتھ انصاف کا امکان نہیں ہے۔


ادھر جرمنی میں انسانی حقوق کے موقف کو بھی دھچکا لگا ہے۔ بین الاقوامی مانیٹرز نے موسمیاتی کارکنوں کے ساتھ جرمن ریاست کے برتاؤ کی وجہ سے ملک کے موقف کو ''کھلے‘‘ سے ہٹا کر '' رکاوٹ کا شکار‘‘ یا ''بند‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر جرمنی اپنے آپ کو انسانی حقوق کے چیمپئن کے طور پر دیکھتا ہے۔

شام میں تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت جرمن عدالتوں کے استعمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ گزشتہ سال جنوری میں عدالت نے ایک مرکزی ملزم کو انسانیت کے خلاف جرائم، قتل، عصمت دری اور آزادی سے محرومی کے 27 الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔


گرین پارٹی کے اجتماع میں جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نے انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ والے ممالک کی بات کرتے ہوئے جوابدہی کے ساتھ سیاسی عمل کو متوازن کرنے کے سفارتی چیلنجز کو تسلیم کیا۔ اُدھر پروفیسر بیلیفلٹ بین الاقوامی برادری کو درپیش بحرانوں کی تعداد کے پیش نظر کہتے ہیں کہ اس توازن کو درست کرنا پالیسی سازوں کے لیے ایک اہم چیلنج بنا رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔