ہیٹننگ پر زیادہ خرچ کیے بغیر گھر کیسے گرم رکھا جائے؟

جیسے جیسے سردیوں کے دن قریب آتے جا رہے ہیں گھروں میں بھی ٹھنڈ بڑھتی جا رہی ہے۔ تاہم توانائی کے بحران اور مہنگائی میں مسلسل اضافے سے سوال اُٹھ رہا ہے کہ توانائی بچاتے ہوئے کیسے گھروں کو گرم رکھا جائے۔

ہیٹننگ پر زیادہ خرچ کیے بغیر گھر کیسے گرم رکھا جائے؟
ہیٹننگ پر زیادہ خرچ کیے بغیر گھر کیسے گرم رکھا جائے؟
user

Dw

یورپ بھر، خاص طور سے جرمنی میں ان دنوں جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے وہ ہے توانائی کا بحران اور موسم سرما میں سردی سے بچنے کے طریقے۔ جیسے جیسے درجہ حرارات گرتا جائے گا ویسے ویسے گھروں، دفتروں اور دیگر مقامات پر توانائی کی بچت کرتے ہوئے ہر کسی کو سردی سے بچنا ہو گا۔ اس کے لیے چند سنہری اُصول اپنانا ضروری ہو گا۔

گھروں کی مناسب ہیٹننگ

سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ گھر کے کس حصے کو اور کب گرم کیا جانا چاہیے۔ گھر کے ہر کمرے اور کونے کو بیک وقت گرم کرنے سے توانائی کا بہت زیادہ استعمال ہوگا جو توانائی کے موجودہ بحران کے دور میں نہایت نامناسب عمل ہے۔ کمرے کا درجہ حرارت ایک ڈگری بڑھانے کا مطلب ہے توانائی میں 6 فیصد کا اضافہ۔


دن کے وقت سونے کے کمرے اور رات کو گھر کے باقی حصوں میں درجہ حرارت کم رکھ کر توانائی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں حرارتی نظام کو مکمل بند رکھنا اقتصادی طور پر فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا کیونکہ اس سے دیواروں اور فرش وغیرہ غیر ضروری طور پر بہت ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ یہ بات خاص طور سے ایسے گھروں میں جہاں زیادہ عرصے سے تزئیبنگلہ دیش میں لوڈشیڈنگ: اسّی فیصد حصہ تاریکی میں ڈوب گیان و آرائش نہیں کی گئی ہو، وہاں پھپھوندی لگ جانے سبب بن سکتی ہے۔

ایسے مکانوں میں توانائی کا کفایت شعاری سے استعمال اُس صورت میں ممکن ہوتا ہے جب جدید تھرمواسٹیٹ کو بروئے کار لایا جائے۔ یعنی مخصوص اوقات کے لیے خاص کمروں کو ایک مخصوص درجہ حرارت کے ساتھ تھرمواسٹیٹ سے کنٹرول کیا جائے۔ ایسے تھرمو اسٹیٹ باآسانی نصب کیے جا سکتے ہیں۔


کمروں کے دروازے بند رکھنے سے بھی توانائی بچائی جا سکتی ہے۔ یعنی جس کمرے کو گرم کیا جا روہا ہو اُس کے دروازے کو بند رکھنا چاہیےتاکہ وہاں سے گرمی دوسرے کمروں یا کروریڈور وغیرہ کی سردی کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔

اس کے علاوہ ہیٹر کے سامنے کوئی فرنیچر نہیں ہونا چاہیے نا ہی اس کے آگے پردے لٹکے ہونے چاہییں۔ فرنیچر یا پردہ ہیٹر سے کم از کم 30 سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہونا چاہیے۔ اس کے اوپر بھی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی ہیٹر کے ریڈی ایٹر میں ہوا بھر جاتی ہے اور وہ مؤثر طریقے سے کام نہیں کر سکتا، اس لیے اس سے کبھی کبھی ہوا نکال دی جانی چاہیے۔


درجہ حرارت کو سیلننگ سے محفوظ رکھنا

گھر کے جو کمرے ہیٹننگ کے ذریعے گرم ہو چُکے ہوں ان کا درجہ حرارت برقرار رکھنا اور وہاں سے گرمی کا کسی اور سمت بڑھ جانے کے عمل کو روکا جانا چاہیے ساتھ ہی کھڑکی دروازوں کی سیلننگ بالکل بند ہونی چاہییں تاکہ وہاں سے ہوا کا گزر ممکن نہ ہو۔ نہ گرم ہوا باہر اور نہ ہی سرد ہوا اندر آنی چاہیے۔ پرانے 'ونڈوز فریم‘ کو ربر یا فوم کی پٹیوں سے سیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح 7 فیصد تک توانائی کی بچت ممکن ہے۔

آیا کسی کھڑکی سے ہوا اندر یا باہر منتقل ہو رہی ہے ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کھڑکی کے سامنے ایک جلتی ہوئی موم بتی رکھیں اگر اس کا شعلہ کسی خاص جگہ پر ٹمٹائے تو یہ اس امر کی نشانی ہے کہ وہاں سے ہوا لیک ہو رہی ہے۔


پلیکسی گلاس کا استعمال

کھڑکیوں میں پلیکسی گلاس یا '' ڈبل گلیزڈ‘‘ شیشے استعمال کریں کیونکہ ایسے شیشے کی دونوں تہوں کے درمیان ہوا ہوتی ہے۔ پلیکسی گلاس کی پتلی شیٹ استعمال کرنے سے 'سنگل گلیزڈ ونڈو‘ کو 'ڈبل گلیزیڈ ونڈو‘ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پلیکسی گلاس کو کھڑکی کے سائز سے تھوڑا بڑا کاپنا چاہیے اور پھر اسے ونڈو فریم کے اندر ویلکرو یا ٹیپ کے ذریعے جوڑ دیا جانا چاہیے۔ اس سے دراصل ونڈو پین اور پلیکسی گلاس کے درمیان ایک انسولیشن بن جاتی ہے۔

تازہ ہوا کا گزر ضروری

چار افراد پر مشتمل ایک گھر میں روزانہ چھ سے بارہ لیٹر آبی بخارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمرے میں نمی جتنی زیادہ ہوگی اور درجہ حرارت جتنا کم ہوگا پھپھوندی لگنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ باتھ روم میں نہانے کے بعد اور باروچی خانے میں کھانا پکانے کے بعد کھڑکی کو پانچ تا دس منٹ کھول دینا چاہیے تاکہ مرطوب ہوا یا رتوبط باہر نکل جائے۔ صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہیٹر بند کر کے کمرے کی کھڑکی کو کھولنا بھی اسی طرح سے ضروری ہے۔ ماہرین دن میں دو سے چار بار تمام کمروں میں ہوا کا گزر ممکن بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔ سردیوں میں خاص طور پر 10 منٹ تک کھڑکی ضرور کھولنی چاہیے۔ اس طرح پہلے سے استعمال شدہ ہوا تبدیل ہوتی رہتی ہے۔


جسم کو گرم رکھنا

ہمارے گھروں کو گرم رکھنے کی بنیادی وجہ دراصل خود کو سردی سے بچانا ہوتی ہے۔ ہمارے جسم کے اندر کے اعضا اور دماغ کو مسلسل 36 سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھا جانا ضروری ہے۔ اگر جسم کا درجہ حرارت گر جائے تو ہماری جلد کو خون کی فراہمی کم ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سردیوں یں ہمارے پاؤں ٹھنڈے رہتے ہیں۔ اس کے لیے اون انتہائی کارآمد ہوتا ہے اس کے ریشوں کا 85 فیصد حصہ ہوا سے بنتا ہے اور ہوا کی یہ تہہ ہمارے جسم کی حرارت کو محفوظ رکھتی اور ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔