کورونا کی بندشيں: ٹين ایجرز خود کو کیسے بہلائيں؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوعمری کے مسائل کچھ مختلف ہی ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران نوعمروں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کورونا کی بندشيں: ٹين ایجرز خود کو کیسے بہلائيں؟
کورونا کی بندشيں: ٹين ایجرز خود کو کیسے بہلائيں؟
user

ڈی. ڈبلیو

اسکول بند ہونے، منسوخ ہونے والی سرگرميوں اور رابطے پر پابندیوں کی وجہ سے بہت سارے نوجوان ایسے کئی لمحات اور مواقعوں سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کے لیے اہم ہیں۔ ان حالات میں اس کے علاوہ روز مرہ معمولات سے بالکل ہٹ کر، نہ اسکول کے اسباق نہ دوستوں سے گپ شپ۔

ان نوجوانوں کو ذہنی الجھن اور زندگی سے بے زار ہونے سے بچانے کے ليے بہبود اطفال کے عالمی ادارے یونیسیف نے چھ نکاتی تجاويز پيش کی ہيں۔


الگ تھلگ، مایوس اور شاید پریشان۔ نوجوان جو يہ محسوس کرتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تنہا نہیں ہیں! یونیسیف سے منسلک نو عمر افراد کی نفسیاتی حکمت عملی کی ماہر مصنفہ اور نیو یارک ٹائمز کی کالم نگار ڈاکٹر لیزا ڈامور نے ذہنیت اور ذہنی صحت کے موضوع پر نوجوانوں کے ليے چھ کارآمد حکمت عملی پيش کی ہے۔ ان کے چھ ٹپس ہيں:

آپ کی پریشانی مکمل طور پر نارمل ہے


ڈاکٹر لیزا ڈامور کے مطابق اسکول بند ہونے اور وائرس سے متعلق خطرناک خبروں کی سرخیوں کے بارے میں آپ پریشان نہ ہوں۔ خوف عام ہے۔ وہ کہتی ہیں،''خوف ایک عام اور صحتمند ردعمل ہے جو ہمیں خطرات سے خبردار کرتا ہے اور اپنی حفاظت کے ليے اقدامات کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر لیزا ڈامور کے بقول،''خوف آپ کو ایسے فیصلے کرنے میں مدد کرتا ہے، جو آپ کو فوری طور پر لینے ہوں۔ مثال کے طور پر، بہت سے دوستوں سے اور بڑے گروپوں میں لوگوں سے نہیں ملنا، اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوتے رہنا اور نہ دھوئے ہوئے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو نہ چھونا ہے۔ یہ احساسات نہ صرف اپنے آپ کو، بلکہ دوسروں کو بچانے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘


ماہرین نفسیات کہتے ہیں COVID-19 کے بارے میں تمام پریشانی مکمل طور پر قابل فہم ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ معتبر ذرائع (جیسے یونیسیف، ڈبلیو ایچ او یا جرمنی میں رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ اور وفاقی وزارت صحت) سے معلومات حاصل کريں۔ سرخیاں اور بریکنگ نیوز پڑھنے سے باز آجائیں۔

خود کو مشغول کریں


مشکل حالات کے دوران اس سے مسائل کو دو قسموں میں تقسیم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی کون سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میں کچھ کرسکتا ہوں؟ اور ایسی کون سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میں کچھ نہیں کر سکتا؟ ڈاکٹر لیزا ڈامورنے اس حوالے سے بتایا کہ ایک چیز جو ہمیشہ مدد کرتی ہے وہ ہے اپنا دھیان کسی اور طرف بٹانا۔ مثال کے طور پر، آپ ہوم ورک کر کے، اپنی پسندیدہ فلم دیکھ کر یا اچھی کتاب پڑھ کر روزمرہ کی زندگی میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اپنے دوستوں سے رابطہ رکھیں


ان اوقات میں دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بہت سے متبادل طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے۔ ڈاکٹر لیزا ڈامور کا مشورہ ہے کہ ذہن کو تخلیقی بنائیں،'' آپ انسٹاگرام کے متعدد مقابلوں میں حصہ لیں، تخلیقی بنیں اور اپنے دوستوں سے آن لائن بات چیت کرنے کے دوسرے طریقے تلاش کریں۔ سارا دن اسکرین کے سامنے اور سوشل میڈیا پر مصروف رہنا صحت مند نہیں ہے اور یہ آپ کے خوف اور پريشانی کو بڑھا سکتا ہے۔‘‘

اپنے آپ پر توجہ مرکوز کریں


کیا آپ ہمیشہ اپنے موسیقی کے آلے سے کچھ نیا سیکھنا، کوئی نئی کتاب شروع کرنا یا مشق کرنا چاہتے ہیں؟ اب اس کا وقت آگیا ہے! اپنے آپ پر توجہ مرکوز کریں اور اس وقت کا استعمال کریں۔ لہذا آپ ایک ہی وقت میں اپنی نفسیات کا خیال رکھتے ہیں،''مثال کے طور پر، میں نے ان تمام کتابوں کی فہرست لکھی تھی جن کو میں پڑھنا چاہتا ہوں۔‘‘ یہ کہنا ہے ڈاکٹر ڈامور کا۔

اپنے من کی سنيں


دوستوں سے ملنا، مشغلہ، کھیلوں کے ٹورنامنٹ۔ ڈاکٹر لیزا ڈامور کے بقول ان سب کی یاد آنا انتہائی مایوس کن ہے۔ واقعی یہ پریشان کن بھی ہے خاص کر نوجوانوں کے لیے۔ ان مایوسیوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ اپنے جذبات کو نظرانداز نہ کریں! ''اگر آپ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو آپ کو ان احساسات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ غمگین ہو سکتے ہیں اور اگر آپ خود کو غمزدہ نہ ہونے ديں تو آپ خود کو بہتر محسوس کریں گے۔‘‘

جذبات ہر ایک کے مختلف نظر آتے ہیں۔ کچھ نوجوان فن کو فروغ دیتے ہیں، دوسرے نوجوان اپنے غم بانٹنے کے لیے اپنے دوستوں سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے زیادہ وابستہ محسوس کرتے ہیں۔ کچھ دوسرے نوجوان خود کو معاشرتی طور متحرک کرنا پسند کرتے ہيں، مثال کے طور پر دادا دادی یا دوسرے لوگوں کے کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آپ وہ کریں جو آپ کوصحیح محسوس ہوتا ہے۔


اپنے اور دوسروں کے ساتھ صلاح رحمی برتیں

کورونا وائرس کی وجہ سے کچھ نوجوانوں اور نوعمر بچوں کو اسکول میں یا سوشل میڈیا پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈامور کا کہنا ہے، ''بچوں اور نوعمروں کو جو نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو خود اپنے جابروں سے نمٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آہنگوں اور دوستوں کی ٹیم بنا کر موبنگ کرنے والوں کا مقابلہ کرنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔