آپ ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے بچت کر سکتے ہیں
آج کل مہنگائی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کورونا وباء کے بعد پاکستان میں مہنگائی آئی ایم ایف کی مقرر کردہ شرائط کی بنا پر ہو رہی ہے اور اوپر سے رہی سہی کسر اب تباہ کن سیلاب نے نکال دی ہے۔
یہی وہ بنیادی عناصر ہیں، جن کا ڈائرکٹ اثر کسی بھی چیز کی تیاری پر پڑتا ہے کیونکہ ان کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بنانے سے لے کر مارکیٹ تک پہنچانے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بحثیت عوام ہم اس ضمن میں حکومتی احکامات ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔
لیکن پھر بھی کچھ ایسے اقدامات ہوتے ہیں، جو اگر ہم اپنے طور سے اٹھا لیں تو ہم اس مہنگائی کی طوفان موج خیز سے نکل کر کسی قدر آسانی سے کنارے لگ سکتے ہیں۔ مصیبت میں بیٹھ کر سر پیٹنے سے بہتر ہے کہ مختلف طریقے اپنا کر مقابلہ کیا جائے۔ آمدن کے ذرائع بڑھانے کے ساتھ ساتھ بچت کی جانب بھی دھیان دیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ مہنگائی اس کو زیادہ متاثر کرتی ہے، جس کو بے وجہ پیسے خرچ کرنے کی عادت ہو۔ سب سے پہلے تو اپنے اخراجات کا جائزہ لیں کہ کہاں اور کونسا خرچ اضافی ہے؟ یہاں میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہی کہ اشیائے ضروریہ کو کم کریں، میں بات ان لوگوں کی کر رہی ہوں، جن کو موڈ خراب ہونے پر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے پیزا کھانے یا شاپنگ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اخبار، جو گھر میں آتا ہے، اس کو صرف ایک ہی شخص پڑھتا ہے تو اس کی بجائے ان کو آن لائن اخبار پڑھنے پر آمادہ کریں۔ جم کی ممبرشپ کی بجائے قریبی پارک کو ترجیح دیں۔ اگر آن لائن غیر ضروری سبسکرپشنز لے رکھی ہیں تو ان کو ختم کریں کیونکہ ان کے بنا بھی کام چل سکتا ہے۔
عوام کو سب سے زیادہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے فرق پڑتا ہے، جیسا کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ اس کے لیے اگر اپنی گاڑی پر جانا ضروری نہیں ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔
اس کے علاوہ ٹیکسی سروس میں بھی رائیڈ شئیر کرنے کی آپشن موجود ہوتی ہے، جس سے آنے جانے کی لاگت قریباً آدھی رہ جاتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والی، جو بینک میں کام کرتی ہیں، ان کو اپنے آفس کے لیے شہر کے دوسرے کونے پر جانا پڑتا ہے۔
جب سے پٹرول کی قیمت بے تحاشا بڑھی ہے، انہوں نے اپنے علاقے کی اسی روٹ کی چند خواتین کو معمولی معاوضہ کے عوض پک اینڈ ڈراپ دینا شروع کر دی ہے، جس سے ان کے اپنے آنے جانے کی لاگت آدھی رہ گئی ہے۔
اس کے علاوہ اگر مارکیٹ گھر کے قریب ہے تو پیدل یا سائیکل پر جانا زیادہ فائدہ مند ہے۔ اس سے پٹرول بھی بچتا ہے اور ورزش بھی ہو جاتی ہے۔ اگر آپ گاڑی اب خریدنے والے ہیں تو فیول ایفی شینٹ گاڑی کو ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ گاڑی کی مینٹینینس پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ بعض اوقات گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے تیل زیادہ خرچ کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک درمیانے سائز کی گاڑی کے پٹرول کا خرچہ ہر 25 کلو گرام کے وزن پر ایک فیصد بڑھ جاتا ہے لہذا ان کی تجویز کے مطابق گاڑی میں غیر ضروری سامان مت رکھیں۔
کچھ تبدیلیاں خریداری میں بھی کرنا پڑیں گی۔ امپورٹڈ سامان کی خریداری کوشش کریں کہ چھوڑ دیں۔ یہ سامان ملکی معیشت پر بوجھ کے علاوہ صارف کی جیب پر بھی بوجھ ہوتا ہے۔ اس لیے اسٹیٹس کے زعم سے نکل کر معیاری ملکی اشیاء خریدیں اور استعمال کریں۔
ہمیں اپنے کھانے پینے کی عادات میں بھی کچھ ترمیم کرنا پڑے گی۔ زیادہ تیل والی یا مرغن غذائیں جیب پر بھی بوجھ بنتی ہیں اور صحت پر بھی۔ اس لیے کم تیل والی صحت بخش غذائیں استعمال کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصروفیت دماغی امراض سے دور رکھتی ہے۔ اس لیے خود کو مصروف رکھنے کے لیے اور بوریت دور کرنے کے لیے کچن گارڈننگ اپنائیں، جس کے لیے بہت ساری جگہ درکار نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر اب ایسے بھی طریقے موجود ہیں، جن سے وہ سبزیاں، جن کی قیمت گر چکی ہوتی ہے، ان کو لے کر زیادہ عرصہ تک محفوظ کرنا بتایا جاتا ہے، ان سے بھی استفادہ کریں۔ بجلی کے بلوں نے سب کو بلبلا کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ اضافی پنکھے، لائٹس وغیرہ نہ جلیں تاکہ بجلی کی بچت ہو۔
پانی کے استعمال کو کنڑول کریں۔ کم از کم دانت برش کرتے ہوئے پانی کے نل کو بند کر دیا کریں یا شاور کی بجائے بالٹی کا استعمال کریں۔ اس سے پانی کم استعمال ہو گا اور ٹینکی جلدی خالی نہیں ہو گی۔ اس لیے موٹر بھی کم چلے گی، یہ بھی بجلی کی بچت کا ایک طریقہ ہے۔
اب تک سب بچت کی بات کی مگر مہنگائی کا مقابلہ بچت ہی نہیں ہے بلکہ ذرائع آمدن بڑھا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ اپنے کام کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا کام شروع کریں، جو آمدن میں اضافے کا باعث بنے۔
پاکستان کے ماحول کے مطابق آن لائن مارکیٹنگ، بلاگنگ وغیرہ کے علاوہ جاب کرنے والی خواتین کے بچوں کو معاوضے کے عوض سنبھالنا، ٹیوشن پڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔
موجودہ حالات میں انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اب ترتیب اور سوچ سمجھ کر آمدن خرچ کرنے کی اہمیت بڑھ چکی ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی وقت اور پیسے کے ضیاع کو جنم دیتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔