تاریخ اور قومیت کی تشکیل
جب بڑی سلطنتیں فتوحات کے ذریعے دوسری قوموں پر اپنا تسلط قائم کرتی ہیں، تو وہ ان کی شناخت اور تاریخ کو مٹا کر یا مسخ کر کے انہیں اپنا حصہ بنا لیتی ہیں۔ حالیہ دور میں اس کی ایک مثال عثمانی سلطنت کی تھی۔
ترکی میں عثمانی سلطنت نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ملکوں کو خود میں ضم کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ چند مشرقی یورپی ریاستوں کے ساتھ بھی سلطنت عثمانیہ نے ایسا ہی کیا تھا۔ یہی نہیں جب یورپی ملکوں نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کو فتح کیا، تو انہوں نے بھی اپنے سیاسی تسلط کو قائم کرتے ہوئے اپنی نوآبادیوں میں مفتوحہ ممالک کی آزادی کو ختم کر کے ان کی شناخت کو بھی کمزور کر دیا تھا۔
لیکن جب یہ بڑی بڑی سلطنتیں ٹوٹیں اور مختلف قوموں نے یورپی سامراج سے آزاد حاصل کی، تو انہوں نے نئے جذبے کے ساتھ تاریخ کی مدد سے اپنی قومیت کی تشکیل کی۔ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت جو ممالک تھے، آزاد ہونے پر انہوں نے اپنی شناخت کی تلاش میں تاریخ کا سہارا لیا۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے عرب قومیت ابھری، مگر یہ سبھی عرب ممالک کو متحد کرنے میں ناکام رہی۔ پھر ہر ملک نے جداگانہ طور پر اپنی قومی ریاست کی بنیاد رکھی۔ مثلاً مصر، شام اور عراق انہوں نے اپنا رشتہ قدیم تاریخ سے جوڑا۔ مصری مؤرخوں نے قدیم مصر کی تہذیب اور فرعونوں کے عہد کو اپنی تاریخ میں شامل کیا۔ عراق نے قدیم میسوپوٹامیا کی تہذیب کو اپنایا اور اس کی روایات پر فخر کرنا شروع کیا۔ شام نے اپنا رشتہ بازنطینی سلطنت سے جوڑا اور یونانی زبان کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ہابس برگ (Habsburg) سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ کے ممالک آزاد ہوئے اور اپنی قومی ریاستوں کی بنیاد ڈالی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی سامراج سے آزاد ہونے والے ملکوں نے بھی تاریخ کی مدد سے اپنی قومیت کی تشکیل کی۔
قومیت کی اس تشکیل میں تاریخ کو کئی پہلوؤں سے استعمال کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ غیر ملکی تسلط کے دوران ان کی تاریخ کے ماخذ اور یادگاروں کو یا تو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا یا انہیں خستہ حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس لیے نئی قومی ریاستوں کو اپنے ماضی کی تلاش میں اس کے آثار کو دریافت کرنے میں مشکلات رہی تھیں۔ مثلاً جنوبی امریکہ میں میکسیکو کی ریاست نے اپنے ماضی قریب کو دریافت کیا اور اپنی تاریخ کو وہاں سے شروع کر کے اسے جدید عہد تک لائے۔ لیکن دیگر جنوبی امریکی ممالک کو یہ دقت پیش آئی کہ ان کی تہذیبوں کو ہسپانوی اور پرتگیزی حکمرانوں نے تقریباً مٹا دیا تھا۔ ان کی قدیم تہذیبیں جن میں مایا اسٹیک اور انکا شامل تھیں، وہ حملہ آوروں کے ہاتھوں برباد کر دی گئی تھیں۔ اس لیے ان ملکوں کا تعلق بس سپین اور پرتگال سے تھا اور ان کے قدیم باشندے سیاسی اور مذہبی تسلط کی وجہ سے اپنے ماضی کو فراموش کر چکے تھے۔ مقامی باشندے اس قابل ہی نہ تھے کہ اپنی تاریخ لکھتے اور خود کو تاریخی گمنامی سے نکالتے۔
ان ملکوں میں اس وقت تبدیلی آئی جب سپین اور پرتگال کے باشندے طاقت ور ہو گئے اور جب انہوں نے سپین اور پرتگال سے آزادی کی جدوجہد کی، تو مقامی باشندوں کو اپنے ساتھ ملا کر پرانے ماضی کو دریافت کرنا شروع کیا اور اپنی شناخت کو اس سے جوڑ لیا۔ اس کو مضبوط کرنے کی غرض سے پرانی تہذیبوں کے آثاروں کو دریافت کیا گیا اور ان تہذیبوں کی روایات سے آگہی حاصل کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی امریکہ کی ریاستوں کی قومیت کی تشکیل از سر نو ہوئی۔
ہابس برگ ایمپائر کے ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو اس کا حصہ تھے، انہوں نے اپنی قومی ریاستیں قائم کیں اور اپنی جدید تاریخ میں خود کو ہابس برگ ایمپائر سے جدا کر کے اپنی قومیت کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے میں پولینڈ کا ذکر ضروری ہے۔ پولینڈ کو تین بار آسٹریا، روس اور پروشیا نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپس میں تقسیم کر لیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی آزاد حیثیت نہیں رہی تھی۔ یہ پولینڈ کے مؤرخوں کا جذبہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کا سیاسی وجود باقی نہ رہنے پر بھی اس کے جغرافیائی وجود کو تاریخ کے ذریعے زندہ رکھا۔ ان میں سے بیشتر وہ مؤرخ تھے، جنہوں نے جلاوطنی میں زندگی گزاری اور پولینڈ کی تاریخ پر تحقیق کرتے رہے۔ لہٰذا جب پولینڈ سیاسی لحاظ سے آزاد ہوا، تو اس کی تاریخ نے اس کے وجود کو تسلسل کے ساتھ ثابت کیا۔
یورپی سامراج سے آزادی کے بعد سب سے زیادہ مشکل افریقہ کے نوآزاد ملکوں کو ہوئی کیونکہ سامراج نے جاتے وقت افریقہ کا جغرافیہ ہی بدل ڈالا تھا۔ جو نئے ملک آزاد ہوئے، ان کی قبائلی شناخت اور سرحدوں کا تعین اس انداز سے کیا گیا کہ ان ملکوں کے درمیان سیاسی جھگڑے اور جنگیں ہوتی رہیں۔ چونکہ افریقہ کی آبادی قبیلوں کی صورت میں ہے، اس لیے ان قبیلوں کو متحد کر کے انہیں قوم کی شکل دینا بہت مشکل تھا۔ بہرحال مؤرخین نے یہ کوشش تو کی ہے یوں کسی قومی ریاست کے اندر رہنے والوں کو قوم بھی بنایا۔
برصغیر ہندوستان میں بھی کسی ایک قوم کا وجود نہ تھا۔ جغرافیائی طور پر ہندوستان مختلف علاقوں میں بٹا ہوا تھا۔ جنوبی اور مشرقی ہندوستان تہذیبی طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ان کا ماضی اور تاریخ بھی جدا تھے۔ سامراج سے آزادی کے دوران ہندوستان کے مختلف علاقے اکٹھا ہوئے اور ان میں قومیت کا جذبہ ابھرا۔ لیکن پھر اسی قومیت کے جذبے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں تقسیم بھی کر دیا۔ ہندوؤں نے اپنی قومیت کی بنیادوں کو قدیم ہندوستان کی تاریخ میں تلاش کیا تو مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو اسلامی تاریخ سے ملا کر علیحدہ شناخت کی تشکیل کی، جس کی وجہ سے 1947ء میں ہندوستان ان دو قومیتوں میں تقسیم ہو گیا۔
اگرچہ تاریخ قومیت کی تشکیل کرتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مؤرخ قومی مفادات کے مدنظر تاریخ کو بدلتے بھی رہتے ہیں اور ان واقعات کو سامنے لاتے ہیں، جو قومیت کے مفاد میں ہوں۔ مگر جہاں واقعات ان کے نظریے سے متضاد ہوں، وہاں وہ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تاریخ کی مدد سے قومیت کی تشکیل دیرپا ہوتی ہے یا پھر اسے تاریخ ہی کے ذریعے بدل کر دوبارہ سے قومیت کے ایک نئے جذبے کو ابھارا جاتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔