بین الاقوامی خلائی مرکز میں مسلمان خلا باز روزے کیسے رکھتے ہیں؟
دنیا بھر میں رمضان کے مہینے میں سحر و افطار کی رونقیں نظر آتی ہیں۔ لیکن سیارۂ زمین سے باہر بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر مسلمان خلا باز کس طرح روزے رکھتے ہیں؟
دنیا بھر میں 22 مارچ سے رمضان کے مہینے کا آغاز ہو چکا ہے اور ہر طرف سحر و افطار کی رونقیں ڈیرے ڈالے نظر آتی ہیں۔ اگرچہ مہنگائی اور دگر گوں معاشی حالات کے باعث اس مرتبہ یہ رونقیں قدرے ماند پڑ چکی ہیں۔
ایسے میں فلکیات اور خلائی سائنس میں دلچسپی رکھنے والے افراد یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ زمین سے 250 میل کی بلندی پر واقع بین الاقوامی خلائی مرکز میں خلا باز سلطان النیادی کس طرح رمضان گزار رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے خلا باز سلطان النیادی فی الوقت چھ ماہ کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ 2 مارچ کو سپیس ایکس کی ڈریگون سپیس کرافٹ کے ذریعے فلوریڈا میں کیپ کارنیوال سپیس سینٹر سے مشن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ سلطان النیادی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلمان خلا باز ہیں جنہیں طویل مدت کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز بھیجا گیا ہے۔
سلطان النیادی کے معمولات کیا ہیں؟
سلطان النیادی کے مطابق چھ ماہ کے دوران وہ مختلف تحقیقی منصوبوں پر کام کریں گے جن میں سب سے اہم سٹین فورڈ یونیورسٹی کی 'کارڈینل ہرٹ سٹڈی‘ ہے۔ اس تحقیق میں دل کے ٹشوز کو استعمال کرتے ہوئے مائیکرو گریویٹی میں ان پر مختلف کلینیکل ڈرگز کے اثرات کو نوٹ کیا جائے گا۔ النیادی کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نہ صرف خلا میں قیام کے دوران در پیش دل کے مسائل کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو گی بلکہ زمین پر دل کے مریضوں کے علاج میں بھی اس سے بڑی پیش رفت متوقع ہے۔
کیا خلا میں روزہ رکھنا فرض ہے؟
سلطان النیادی کا کہنا ہے کہ یہ سوال ان سے مشن پر روانگی سے بہت پہلے سے پوچھا جا رہا تھا کیونکہ صرف تین ہفتے بعد ہی رمضان کا آغاز ہونے والا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس حوالے سے علما، جن میں سعودی عرب کے مفتی اعظم بھی شامل ہیں، پہلے ہی ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ خلا بازوں کو بین الاقوامی خلائی مرکز میں 'مسافر‘ تصور کیا جائے گا اور ان پر وہاں روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان سے پہلے 2007 میں ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے خلا باز شیخ مظفر شکور کو بھی رمضان کے مہینے ہی میں بین الاقوامی خلائی مرکز میں قیام کا موقع مل چکا ہے، لیکن انھوں نے اس دوران روزہ نہیں رکھا تھا۔ نصف رمضان تک النیادی نے بھی روزہ نہیں رکھا ہے۔ ان کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر چھ ماہ کا مشن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ خلا بازوں کو اس دوران بہت زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔
کسی ایک کی صحت متاثر ہونے سے پورے عملے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی خوراک اور فزیکل فٹنس کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے ہر روز ڈھائی گھنٹے کی ورزش لازمی ہے تاکہ پٹھوں اور ہڈیوں کو کمزوری اور سُن ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی مائیکرو گریوٹی کے باعث ہونے والی جسمانی کمزوری اور ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے لیے دن میں تین وقت نیوٹریشن سے بھرپور خوراک لینا بھی ضروری ہے۔
پیکٹ والی جو خوراک خلا باز روزانہ لیتے ہیں اس میں سالمن اور ٹیونا فش، پاستا، بند گوبھی، گوشت، فروٹ سلاد، مختلف پھل، چائے اور ڈی کیفی نیٹڈ کافی شامل ہے۔ النیادی کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس رمضان روزہ رکھیں جس کے لیے وہ گرین وچ ٹائم یا 'کوآرڈی نیٹڈ یونیورسل ٹائم‘ کے مطابق سحر و افطار کریں گے۔ اس دوران ان کے جسم پر پڑنے والے اثرات کی معلومات مشن کی تکمیل کے بعد ناسا کی اجازت سے ہی جاری کی جا سکیں گی۔
اب تک خلا میں روزے کا تجربہ کیسا رہا؟
اگرچہ سلطان النیادی ابھی تک خلا میں روزے کے تجربے سے نہیں گزرے مگر ان سے پہلے متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے ایک اور خلا باز پرنس سلطان بن سلمان خلائی شٹل میں روزہ رکھ چکے ہیں۔ پرنس سلطان 17 جون 1985 کو خلائی شٹل ڈسکوری کے ذریعے 7 دن کے خلائی مشن پر روانہ ہوئے تھے۔ اس دوران رمضان المبارک کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔
پرنس سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ان کی روانگی سے قبل اس وقت سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے فتوی جاری کیا تھا کہ خلا میں روزہ فرض نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک ایڈونچر کے لیے روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں اس دوران وہ خلا میں زیرو گریویٹی کی حالت میں تھے اور نیند کی کمی کے باعث وہ شدید تھکن کا بھی شکار تھے۔
پرنس سلطان نے فلوریڈا کے رمضان کلینڈر کے مطابق روزہ رکھا تھا مگر افطار تک انہیں پانی کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ انھوں نے چائنیز سویٹ اور سار سوپ کے ساتھ افطار کیا جس سے جسم کو فوری تقویت ملی۔
پرنس سلطان بتاتے ہیں کہ اس دور میں خلا میں روزے سے کہیں زیادہ چیلنجنگ کام نماز ادا کرنا تھا کیونکہ زیرو گریویٹی کے باعث جسم ہمہ وقت معلق تھا اور ایک جگہ ٹکے رہنے کے لیے پاؤں کو ایک مخصوص فاسٹر سے جوڑے رکھنا پڑتا تھا، تب بھی سجدہ کسی صورت ممکن نہیں تھا۔ پرنس سلطان نے خلا میں روزے سے جسم پر پڑنے والے سٹریس کی تفصیلات اپنے سفر کے 35 سال بعد شائع ہونے والی کتاب 'سیون ڈیز اِن سپیس‘ میں بھی درج کی ہیں۔
خلا میں سحر و افطار کے اوقات کیسے معلوم کرتے ہیں؟
زمین پر رمضان کے آغاز کے ساتھ ہر علاقے کا رمضان کلینڈر جاری کیا جاتا ہے جس میں سحر و افطار کا وقت درج ہوتا ہے۔ اس کا تعلق سورج کے طلوع غروب سے ہے۔
لیکن بین الاقوامی خلائی مرکز پر ایک دن میں خلا باز 16 طلوع و غروب دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے علما کی حتمی رائے یہ ہے کہ خلا باز جس علاقے سے مشن کے لیے روانہ ہوں وہاں کے کلینڈر کے مطابق سحر و افطار کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔