خلیجی ممالک میں غلامی کی تاریخ
خلیجی ممالک میں غلامی پر پابندی عائد ہے مگر سیاہ فام عرب شہریوں کے خلاف نسل پرستانہ رویوں اور امتیازی سلوک پر آج بھی پردہ ڈالا جاتا ہے۔ چند ممالک اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خلیجی خطے کی عرب ریاستوں میں مختلف صورتوں میں غلامی اب بھی پھیلی ہوئی ہے، جہاں لاکھوں تارکین وطن بہت کم یا بغیر تنخواہ کے مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ 'کفالہ نظام‘ خطے کے بیشتر ممالک میں اب بھی عام ہے، جو آجروں کو افریقا اور جنوبی ایشیا سے غیر ہنر مند کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بدلے میں ملازمین اپنے پاسپورٹ مالکان کو دے کر ملک چھوڑنے یا ان کی اجازت کے بغیر ملازمت تبدیل کرنے تک سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
اس خطے میں جبری مشقت یا غلامی کا رواج کافی پرانا ہے۔ روایتی غلامی، جس میں لوگوں کو اغوا کر کے گھر سے دور غلاموں کے طور پر فروخت کیا جاتا تھا، 1970 کی دہائی تک خلیجی خطے کے کئی حصوں میں قانونی تھی۔ اب البتہ کچھ عرب ریاستیں آہستہ آہستہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔
اب زمینی حقائق کیا ہیں؟
بحرین سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ سیاہ فام ملاح، یاسر خلف کا کہنا ہے، ''ہم سیاہ فام، عرب اور بلوچ سب مل جھل کر اچھے طریقے سے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی لڑائی چھڑتی ہے، نسل پرستانہ گالیاں دی جاتی ہیں۔‘‘
عراق سے تعلق رکھنے والے ایک سیاہ فام شخص مدح جی نے بتایا، ''لوگ بلا خوف و خطر ہماری بے عزتی کرتے ہیں۔ لوگ ہمیں عبید کہتے ہیں، جس کے عربی زبان میں معنی غلام ہیں۔ یہ اتنا عام ہے کہ انہیں پتا تک نہیں چلتا کہ یہ دوسروں کے لیں تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔‘‘ مدح جی خلیجی خطے میں رہنے والی سیاہ فام افریقی کمیونٹی کے تقریباً ایک ملین شہریوں میں سے ایک ہیں۔ انیسویں صدی میں کئی غلاموں کو یہاں لایا گیا تھا۔
کویت کی امریکن یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر ہشام العوادی کا کہنا ہے، ''خطے میں رہنے والے تمام افریقیوں کو یہاں غلاموں کے طور پر نہیں لایا گیا تھا، ان میں سے کچھ حج یا تجارت جیسی وجوہات کی بنا پر رضاکارانہ طور پر پہنچے اور پھر مستقل طور پر ٹھہر گئے۔‘‘
عراق نے 1920 کی دہائی کے اوائل میں غلامی کو ختم کر دیا تھا۔ قطر اور سعودی عرب نے بالترتیب 1952 اور 1962 میں اس کی پیروی کی۔ عمان، جو کبھی خطے میں غلاموں کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا، 1970 میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دینے والے آخری ممالک میں سے ایک تھا۔
خلیجی خطے کے کچھ ممالک اب جا کر غلامی کی میراث کو تسلیم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھا رہے ہیں۔ قطر نے 2015 میں دوحہ میں عرب دنیا میں غلامی پر توجہ مرکوز کرنے والا پہلا عجائب گھر بن جیلمود ہاؤس کھولا۔ میوزیم میں واضح طور پر غلاموں کی منافع بخش تجارت میں قطر کے کردار کے بارے میں بتایا گیا ہے اور اس کے متاثرین کی آزمائشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اور قدم پچھلے سال اٹھایا گیا، جب 'خلیج عرب میں غلاموں کی تاریخ‘ نامی کتاب شائع ہوئی، جو اس موضوع پر پہلی عربی اشاعتوں میں سے ایک ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔