سپریم کورٹ میں چون ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا: وجوہات کیا ہیں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد چون ہزار نو سو پینسٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ انیس سو تینتالیس کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
خیال رہے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں سپریم کورٹ کے اندر زیر التوا مقدمات کی تعداد میں تقریباً 10 ہزار کا اضافہ ہوا۔ گذشتہ برس فروری میں جب موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنےعہدے کا حلف لیا تب 53 ہزار 964 مقدمات فیصلے کے منتظر تھے۔ تاہم چند ماہ بعد اس تعداد میں تقریباً 2 ہزار کیسز کی کمی دیکھی گئی۔
12 ستمبر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے زیر التوا مقدمات کم ہونے پر نہ صرف خوشی بلکہ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر یہ تعداد مزید کم ہو کر 45 ہزار تک آ جائے گی۔ مگر اس کے برعکس یہ تعداد ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔
سپریم کورٹ کے معروف رپورٹر حسنات ملک ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ برس ان کی دلچسپی کا مرکز سیاسی معاملات نہ تھے۔ سپریم کورٹ کے ماحول میں وہ تناؤ نہ تھا جو سیاسی معاملات میں مداخلت سے اب در آیا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کے دور کے مقابلے میں سپریم کورٹ کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ اس کی ایک مثال زیر التوا مقدمات کا کم ہونا تھا۔‘‘ حسنات ملک نے مزید کہا،'’مگر رواں برس اپنے پیش روؤں کی طرح سیاسی مسائل ان کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ پنجاب میں الیکشن کے معاملے پر ان کا از خود نوٹس اِس کا نقطہ عروج تھا۔ سپریم کورٹ کی توانائیاں غیر ضروری معاملات میں صرف ہونے لگیں، عدلیہ کے درمیان تفریق مزید گہری ہوئی، پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے آ گئے۔"
وہ کہتے ہیں ”جب پنجاب الیکشن کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا تو اس پہ از خود نوٹس کی ضرورت نہ تھی۔ جو توانائیاں اِس ایک کیس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر صرف ہوئیں اگر وہی درست سمت میں آگے بڑھنے پر ہوتیں تو بطور ادارہ سپریم کورٹ بہتر پرفارم کر رہی ہوتی، زیر التوا کیسز کا وہ بوجھ نہ ہوتا جو آج ہے۔" ڈی ڈبلیو اردو سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ، ”پارلیمانی امور اتنی بری طرح الجھ کر رہ گئے تھے کہسپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ ایک ادارے کی کارکردگی دوسرے ادارے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے محض چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔"
سابق اٹارنی جنرل اور نامور قانون دان عرفان قادر سپریم کورٹ کی موجودہ صورت حال کی جڑیں ماضی میں تلاش کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”ملکی تاریخ میں عدلیہ کبھی اتنی طاقتور نہ تھی جتنی گذشتہ پندرہ برس میں نظر آئی۔ پہلے عدلیہ محض سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہوتی تھی مگر بحالی تحریک کے بعد یہ ملکی معاملات میں باقاعدہ اسٹیک ہولڈر بن گئی۔‘‘ ”پارلیمان اور فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ ملکی معاملات میں زیادہ سے زیادہ اسپیس لینے کی خواہش مند نظر آئی جس کے تمام اختیارات چیف جسٹس نے اپنے ہاتھ میں کر لیے۔
”بنیادی مسئلہ اسی ون مین شو کا ہے کہ ایک چیف جسٹس پورے ادارے پر حاوی ہے۔ سپریم کورٹ کے معاملات وہاں موجود ججز کی اجتماعی دانش کے بجائے فرد واحد کی صوابدید کے مطابق چل رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نئے ججوں کی تعیناتیاں رکی ہوئی ہیں، پہلے سے موجود ججز ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ سالہاسال کے مقدمات آج بھی سماعت کے منتظر ہیں۔" خیال رہے کہ چیف جسٹس کے لیے 'ون مین شو‘ کے الفاظ ان کے دو ساتھی ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے بھی استعمال کیے تھے۔
13 جولائی اور 13 اگست 2022 ء کو بالترتیب جسٹس مظہر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ یوں تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد ایک جج کی تعیناتی ہوئی جبکہ ایک نشست ابھی تک خالی ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا وقت بھی آیا جب گذشتہ برس ایک ہی وقت میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی نشستیں خالی تھیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ستمبر 2022 ء میں خط کے ذریعے توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں ”ہر گزرتے دن کے ساتھ مقدمات کا پہاڑ کھڑا ہو رہا ہے، سمجھ نہیں آتا سپریم کورٹ استطاعت سے 30 فیصد کم پر کیوں چل رہی ہے؟ عوام سپریم کورٹ پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں، سپریم کورٹ 700 کے اسٹاف پر مشتمل ہے، ہمیں عوام کو سپریم کورٹ سے مایوس نہیں ہونے دینا چاہیے، اِس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔" حسنات ملک کہتے ہیں ”ججز کی تعیناتی نہ ہونے میں کوئی تیکنیکی رکاوٹ حائل نہیں بلکہ یہ جیوڈیشل پولیٹیکس کا حصہ ہے۔ اگر سینیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف تاخیر سے بچا جا سکتا ہے بلکہ پسند ناپسند کا تاثر بھی ختم ہو گا۔"
حسنات ملک کے مطابق ”ہر ادارہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے، مسائل حل کرنے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے میٹنگ کرتا ہے۔ سپریم کورٹ میں یہی کام فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ہوتا ہے۔ مگر تقریباً تین سال سے فل کورٹ اجلاس نہیں طلب کیا گیا۔ ”بطور ادارہ سپریم کورٹ کے پاس آگے بڑھنے کی واضح حکمت عملی نہیں۔ ہرچیف جسٹس مختلف طریقے سے چل رہا ہوتا ہے۔ کوئی ماڈل کورٹس کی بات کرتا ہے، کوئی ڈیم بنانے چل پڑتا ہے، کوئی الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرنے لگتا ہے۔ بطور ادارہ سپریم کورٹ کی حکمت عملی وضع ہوتی ہے نہ اس کی کوئی اونر شپ ہوتی ہے۔"
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے معروف صحافی، اینکر اور کالم نگار ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ ”ابھی چیف جسٹس نے آبادی کے مسئلے پر دو روزہ کانفرنس بلائی ہوئی ہے۔ اس موضوع کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں مگر کیا ہر ادارے کو اپنی حدود کا خیال اور ترجیحات کا تعین نہیں کرنا چاہیے؟ سپریم کورٹ جس اندرونی بحران کا شکار ہے اگر چیف جسٹس صاحب اس پہ بات کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس طلب کرتے تو یہ کہیں زیادہ نتیجہ خیز قدم ہوتا۔"
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون اور سپریم کورٹ کی وکیل عائشہ مشتاق کہتی ہیں، ”سپریم کورٹ میں 15 جون سے 11 ستمبر تک موسم گرما کی تعطیلات ہیں۔ اس دوران زیر التوا مقدمات کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔" ان کے بقول، ”موجودہ چیف جسٹس اکتوبر میں ریٹائر ہو جائیں گے جس کے بعد مقدمات کے بروقت فیصلوں کی ذمہ داری اور حکمت عملی اگلے چیف جسٹس پر منحصر ہو گی۔"
عرفان قادر کہتے ہیں ”جسٹس قاضیفائز عیسیٰ کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ عدلیہ سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ اس کی توجہ بروقت انصاف کی طرف ہو گی۔ اس سے نہ صرف زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہو گی بلکہ بطور ادارہ سپریم کورٹ کا وقار بھی بحال ہو گا۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔