شدید گرمی بھی گھریلو تشدد میں بدترین اضافے کا سبب
جنوبی ایشیا میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی کم آمدن والے گھرانوں میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک نئے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے۔
ابھی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت میں اضافے اور خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد کے درمیان گہرا تعلق ہے اور بھارت میں اس کا سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے JAMA سائیکیٹری جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بھارت، نیپال اور پاکستان میں "درجہ حرارت" اور " قریبی ساتھی پر تشدد کے پھیلاؤ " کے درمیان وابستگی کی جانچ کی گئی۔ اس کے لیے تحقیق دانوں نے 15 سے 49 برس کی 194,800 لڑکیوں اور خواتین سے بات چیت کی تاکہ قریبی ساتھی کی جانب سے کی جانے والی جسمانی، جنسی اور جذباتی بدسلوکیوں کا مطالعہ کیا جا سکے۔
مجموعی طور پر اس مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ درجہ حرارت میں سالانہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے اور ساتھی کی جانب سے تشدد یا بدسلوکی کے واقعات میں 4.5 فیصد اضافے کا گہرا تعلق ہے۔ گو کہ مطالعے میں ہر طرح کی آمدنی رکھنے والے تمام گروپوں پر حدت میں اضافے کے باعث تشدد میں اضافہ دیکھا گیا، تاہم اس کا سب سے زیادہ اثر کم اجرت والے اور دیہی گھرانوں پر نظر آیا۔
بھارت گھریلو تشدد کا ہاٹ اسپاٹ ہے
اس جائزے میں شامل تینوں ممالک میں سے بھارت وہ ملک ہے جہاں بڑھتی گرمی کے ساتھ ہی تشدد میں اضافہ سب سے زیادہ تھا۔ مطالعے سے سامنے آیا کہ بھارت میں درجہ حرارت کے ایک ڈگری سینٹی گریڈ کے بڑھنے اور خواتین پر جسمانی تشدد میں آٹھ فیصد جبکہ جنسی تشدد کے واقعات میں 7.3 فیصد اضافے کے درمیان ربط ہے۔
تحقیق کے مطابق "اگر کاربن کے لامحدود اخراج کی یہی صورتحال رہی تو اس بات کے قوی امکان موجود ہیں کہ سن 2090 تک بھارت میں جیون ساتھی یا بوائے فرینڈ کی جانب سے تشدد کے واقعات میں 23.5 فیصد جبکہ نیپال میں 14.9 فیصد اور پاکستان میں 5.9 فیصد اضافہ ہونے کا امکان ہے۔"
بھارت میں شدید گرمی کی لہریں اب ہر برس معمول کی کہانی بنتی جا رہی ہیں۔ مئی کے مہینے میں ملک کے اکثر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں، جہاں درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس یعنی 113 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔
بین الاقوامی ترقیاتی کمپنی IPE-Global میں موسماتی تبدیلی اور پائیداری کے شعبہ جاتی سربراہ ابھیناش موہانتی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "موسمیاتی شدتیں سنگین تر ہوتی جا رہی ہیں جو زندگیوں اور ذریعہ معاش کو تباہ کر رہی ہیں۔ اس کا غیر متوازن اور شدید اثر انتہائی غریب اور کمزور طبقوں پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ صنفی بنیادوں پر لڑکیوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد میں بھی اپنا حصہ ادا کر رہا ہے۔"
موسمیاتی سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات جہاں مرتب ہو رہے ہیں، وہ جنوبی ایشیائی خطے ہیں۔ شدید حدت کے اسباب تلاش کرنے والے ایک تحقیقی گروپ، World Weather Attribution، کی شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی نے جنوبی ایشیا میں ہیٹ ویو یا شدید گرمی کی لہروں کا امکان 30 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ موہانتی کا کہنا ہے کہ خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے سماجی بہبود کی جن اسکیموں کو نافذ کیا جاتا ہے، اس میں شدید گرمی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے درمیان رابطے پر بھی غور کرنا چاہیے۔
شدید گرمی کا گھریلو تشدد سے تعلق
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے وجود میں آنے والے بحرانوں کے باعث گھریلو تشدد کے واقعات میں سنگین اضافے کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا ہے۔ صنفی بنیاد پر تشد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی تنظیم، Protsahan India Foundation کی سربراہ سونل کپور ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں، "شمالی بھارت میں تارکین وطن کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ کام کرنے کے ہمارے تجربے سے معلوم ہوا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جو نقل مکانی ہوتی ہے، اس میں صنفی بنیاد پر تشدد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔"
یہ بھی معلوم ہوا کہ گرمیوں کی شدت کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے کام کے اوقات کار میں بھی کمی ہوئی، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی اجرت میں کمی واقع ہوئی بلکہ مجبوراً گھر میں انہیں زیادہ وقت صرف کرنا پڑا۔ ایسے میں خواتین پر گھریلو کام کاج کے پہلے سے موجود بوجھ میں بھی اضافہ ہوا اور گھریلو ناچاقیاں بڑھیں اور ضرورتیں پوری کرنے میں ناکامی نے مردوں میں تناؤ اور غصے کو بڑھایا۔
صنفی شمولیت کے موضوع پر تحقیق کرنے والی محقق کلپنا وشوناتھ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "کم آمدن والے گھرانوں اور علاقوں کی خواتین کو دیکھ بھال کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں جب معاشی زبوں حالی بھی ہو اور روزگار کے مواقع بھی ضائع ہو گئے ہوں، تو اکثر ایسی ہی خواتین کو اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے تشدد کو سہنا پڑتا ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔