تشدد کے ملزم شامی ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ شروع
شامی ڈاکٹر علاء ایم کو جرمنی کی عدالت میں شامی اذیتی نظام کا حصہ کے الزام کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں 100سے زیادہ ملکوں میں لوگوں کو اذیت دینے کا سلسلہ جاری ہے, ڈاکٹر بھی اکثر ان میں ملوث پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر علاء ایم پر کئی انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ انہوں نے نوعمر لڑکوں کے اعضاء تناسل کو شراب میں ڈبویا اور پھر انہیں آگ سے جلایا، قیدیوں کو پیٹ پیٹ کر ان کے ہاتھ پاؤں توڑ ڈالے اور جن لوگوں نے علاج کے بارے میں شکایت کی انہیں نقصان دہ انجکشن لگائے۔
یہ علاء ایم کے خلاف الزامات کی طویل ترین فہرست میں سے صرف تین مثالیں ہیں جو فرینکفرٹ کے اٹارنی جنرل نے عائد کیے ہیں۔ جرمنی کے رازداری قانون کی وجہ سے ملزم ڈاکٹر کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
علاء پر الزام ہے کہ انہوں نے ملٹری انٹلی جنس سروس کی ایک جیل کے علاوہ حمص اور دمشق میں فوجی قید خانوں میں بھی لوگوں کو اذیتیں دیں۔ وہ سن 2015میں ایک ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے جرمنی آئے۔ جون 2020میں گرفتار کیے جانے سے قبل اس 38سالہ ڈاکٹر نے مختلف ہسپتالوں میں کام کیا۔
ڈاکٹر علاء کے خلاف مقدمے کی کارروائی اسی طرح کے ایک دیگر مقدمے میں جرمن عدالت کے تاریخی فیصلے کے بعد شروع ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے جرمنی کی ایک عدالت نے شام کے ایک سابق آرمی کرنل کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
شام کی خانہ جنگی میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کا جائزہ لینے کے ضمن میں یہ دنیا میں پہلا مقدمہ تھا۔ انور آر نامی سابق کرنل انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے سزاپانے والے شام کا اب تک کا پہلا سب سے اعلی ترین فوجی عہدیدار ہیں۔
حلف کی صریح خلاف ورزی
دنیا بھر میں مریض اپنے ڈاکٹروں پر اعتماد کرتے ہیں۔ طب کے طالب علم ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل تقریبا ً 2400قبل یونانی ماہر طب بقراط کے طے کردہ طبّی اخلاقیات کا حلف لیتے ہیں کہ وہ اپنے مریض کے فائدے کے لیے اپنی بہترین علم اور صلاحیت کے مطابق تشخیص کریں گے اور انہیں کسی نقصان اور ناانصافی سے بچائیں گے۔
لیکن بعض ڈاکٹر اپنے مریضوں کا علاج اور ان کی مدد کرنے کے بجائے ہولناک ریاستی اذیتی نظام میں شراکت دار بن جاتے ہیں۔
مینی سوٹا یونیورسٹی میں میڈیسن اور بائیو ایتھکس کے پروفیسر ایمریٹس اسٹیو مائلز نے اذیت دینے میں ملوث ڈاکٹروں پر بہت جامع تحقیقات کی ہیں۔ مائلز نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کسی بھی اذیتی نظام کا لازمی اور اٹوٹ حصہ ہوتے ہیں۔
" کچھ میڈیکل ریکارڈز کے لیے فرضی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا ذکر نہیں کرتے کہ زخم یا موت دراصل اذیت دینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ایسے ڈاکٹرز اذیت دینے کے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں جن کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اور وہ مریض کو مطلوبہ مکمل اذیت دینے تک زندہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان اسباب کی بنا پر اب کچھ ڈاکٹر پوری دنیا میں اذیت کے نظام میں رچ بس گئے ہیں۔"
یہ سلسلہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے 140ملکوں کی فہرست تیار کی ہے جہاں ڈاکٹروں کی مدد سے لوگوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔
جرمنی میں بھی نازی دور میں نسل پرست ڈاکٹرز بڑے پیمانے پر ناانصافی میں ملوث رہے ہیں۔ اس کا اطلاق سن 1930اور 1940کی دہائی میں ہولوکاسٹ کے دوران نازی ڈاکٹروں پر بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جوسف مینگلے اذیبی کیمپ میں لائے جانے والے قیدیوں کے زندہ رکھنے یا مار دینے کا فیصلہ کرنے کے لیے بدنام تھے۔ وہ بذات خود گیس چیمبروں کی نگرانی اور قیدیوں پر کئی طرح کے تجربات کرتے تھے۔
سابق مشرقی جرمنی میں بھی حالیہ برسوں میں ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جب کچھ ڈاکٹروں نے وہاں کی جابر حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ وکیل ہائیڈرن بڈے نے بالخصوص نفسیاتی علاج کے ہسپتالوں میں اذیت دینے کی متعدد مثالیں ریکارڈ کی ہیں۔
اذیت کی ان شکلوں میں کسی شخص کو قید تنہائی کی اذیت سے لے کر انتہائی تکلیف دہ طبی طریقوں کا استعمال شامل ہے، جس کا واحد مقصد متاثرہ شخص کی قوت ارادی کو توڑ دینا ہوتا تھا۔ ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن نے 1975میں ٹوکیو اعلامیہ منظور کیا تھا۔ جو نہ صرف اذیت دینے میں ڈاکٹروں کو براہ راست ملوث ہونے سے روکتا ہے بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ متاثرین کو اذیت دینے کے خلاف آواز بلند کریں اور احتجاج کریں۔
طبی اخلاقیات پر تحقیقاتی کام کرنے والے مائلز کہتے ہیں کہ کچھ ڈاکٹر بڑی آسانی سے ریاستی حکم کے آگے سرخم تسلیم کردیتے ہیں۔
مائلز کہتے ہیں،" ان کوڈرایا دھمکایا نہیں جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حکومتیں ڈاکٹروں کو استعمال کرنا چاہتی ہیں وہاں ڈاکٹروں کی تعداد عام طورپر کم ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ نہیں چاہتی کہ ڈاکٹروں کو دھمکا کر میڈیکل کمیونٹی کو متنفر کر دیا جائے۔ یہ ڈاکٹر ان کے لیے رضاکار بن جاتے ہیں۔ اس رضاکارانہ خدمت کے عوض میں انہیں ترقی دی جاتی ہے اور بھاری تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر نازی کیمپوں میں کام کرنے والے تمام ڈاکٹروں کو ایس ایس افسر بنا دیا گیا تھا اور انہیں بہت زیادہ تنخواہیں ملتی تھیں۔ لیکن بات صرف مراعات کی نہیں ہے۔ حب الوطنی کے حوالے سے ان ڈاکٹروں کا نظریہ بہت سخت ہوتا ہے اور وہ انسانی حقوق کا بہت کم احترام کرتے ہیں۔"
اذیت دینے پر پوری دنیا میں پابندی ہے۔ شامی آئین بھی اذیت رسانی کے خلاف ہے۔ لیکن آمرانہ حکومتوں میں نہ صرف اس کا سلسلہ جاری ہے بلکہ کچھ ڈاکٹرز ایسے اقدامات میں ملوث ہوتے ہیں، جنہیں اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق اذیت قرار دیا جاتا ہے۔ بعض حکومتیں تنقید سے بچنے کے لیے ان اذیتوں کو "نئے تفتیشی طریقہ کار "کا نام دیتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔