پردے کے پیچھے کیا ہے؟ بالی ووڈ کی آف اسکرین خواتین
اگر یہ کہا جائے کہ اصلی ہیروئنیں تو پردے کے پیچھے ہی کام کرتی ہیں اور اسکرین پر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ ا ن کی ہی محنت و مشقت کا شاخسانہ ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مدھو بالا، مینا کماری، نرگس، اب حال میں عالیہ بھٹ، کرینہ کپور، انوشکا شرما یا دیپکا پاڈکون کو بھلا کون نہیں جانتا۔ انہی کے دم سے بالی ووڈ میں تو رنگ ہیں۔ مگر بالی ووڈ میں کئی ایسی خواتین بھی کام کرتی ہیں، جو پردے کے پیچھے اس انڈسٹری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصلی ہیروئین تو پردے کے پیچھے ہی کام کرتی ہیں اور اسکرین پر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ ا ن کی ہی محنت و مشقت کا شاخسانہ ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ان خواتین کی فہرست طویل ہے۔ کل جبکہ دنیا میں خواتین کا عالمی دن منا یا گیا ہے، پردے کے پیچھے کام کرنے والی ان ہزاروں خواتین کو یاد کرنا اور ان کے کام کو سراہنا واجب بنتا ہے۔ 2017میں ریلیز کی گئی فلم بریلی کی برفی میں کام کرنے والی کرتی سانون کو تو سب نے اسکرین پر دیکھا، مگر یہ فلم کی اشونی ایر تیواری کی ہدایت کاری کی وجہ سے ہی شائقین تک پہنچ پائی۔
اسی طرح پنجابی فیملی سے تعلق رکھنے والی گنیت مونگا نے ابھی تک 27فلموں میں مختلف حثیتوں میں پردے کے پیچھے کام کیا ہے۔ پریرنا اروڑا جنہوں نے انڈسٹری کو پیڈ مین اور ٹوائلٹ ایک پریم کتھا جیسی شاندار فلمیں دی نے ان فلموں کے ذریعے بھارت میں خواتین کے حوالے سے کچھ انتہائی ذاتی مسائل کو نمایاں کیا۔
تامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والی کارتیکی گونسالویس نے دستاویزی فلموں خاص طور پر ماحولیات، وائلڈ لائف کو موضوع بناکر خاصی داد وصول کی۔ ان کی دستاویزی فلمیں آسکر ایوارڈ پینل کیلئے بھی نامزد ہو گئیں تھیں۔ اگرچہ دنیا کے مختلف ملکوں میں فلم انڈسٹری سے ہر سال ہزاروں فلمیں ریلیز ہوتی ہیں، لیکن صرف چند فلمیں ہی اس باوقار اکیڈمی ایوارڈ میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
پروڈکشن اور ڈائریکشن کے شعبے میں بھی کئی خواتین اسکرین پر آنے والے اداکاروں کے اسٹائل کو بہتر بنانے کے کام پر معمور ہوتی ہیں۔ یہ خیال رکھتی ہیں کہ اداکار اور اداکارائیں کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے جاذب نظر آجائیں۔ یہ خواتین اسکرین پر نئے نئے فیشن متعار ف کرواتی ہیں۔ اس وقت اس شعبہ میں اسٹائلسٹ امی پٹیل کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
وہ فی الوقت کنگنا رناوت، عالیہ بھٹ اور پرینکا چوپڑا جیسی اداکاراؤں کے لیے کیورٹر کا کام کرتی ہیں۔ ان کی انڈسٹری میں اتنی مانگ ہے کہ ہر اداکارہ پٹیل کو ہی اپنا فیشن ڈائریکٹر بناناچاہتی ہے۔وہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو لائم لائٹ کے پیچھے ان اداکاروں کو اس طرح دکھانے کی کوشش کرتی ہیں جیسے ان کے مداح انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پٹیل کی طرح بہت سی دوسری خواتین بھی پردے کے پیچھے بالی ووڈ کی خدمت کرتی ہیں۔ کاسٹنگ ڈائریکٹر شانو شرما ہوں یا کرینہ کپور کی منتظم پونم دھامانیہ، یہ دونوں بالی ووڈ کی پاور فل خواتین میں گنی جاتی ہیں۔ دھامانیہ کا کام یہ ہے کہ وہ میڈیا کو کسی ایسی خبر کی بھنک بھی نہ لگنے دیں، جس سے کپور کی بے عزتی ہو یا وہ غیر مقبول بن جائیں۔
فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائیٹنگ کے شعبے میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔
اسی طرح جوں جو ں بالی ووڈ میں اب بولڈ فلمیں بنائی جانے لگیں ہیں اور اسکرپٹ کے مطابق ہیرو اور ہیروئین کو خاصے پرائیوٹ سین کرنے پڑ رہے ہیں، ہدایت کاروں کی ایک اسپیشلسٹ پود جس کو انٹی میسی ڈائیرکٹر کہا جاتا ہے پیدا ہوگئی ہے۔ ان میں اکثر خواتین ہی ہیں، جو ہیجان انگیز سین کو فلمانے کیلئے متعین ہوتی ہیں۔
ان میں کامیاب نام نیہا ویاس کا ہے، جو نہ صرف اداکاروں کو نفسیاتی طور پر ایسے سین کرنے کے لیے تیارکرتی ہیں بلکہ فلماتے وقت اور اس سے قبل اس کی معمولی سے معمولی جزیات کا خیال رکھ کر اس سین کو اس قابل بناتی ہیں، جس سے اس کا مسیج فلم میں جذب ہو جائے۔ اس دوران ا ن کو نہ صرف اداکاروں بلکہ کیمرہ چلانے والوں اور لائٹ فکسنگ کرنے والوں کو بھی ہدایات دینی ہوتی ہیں تاکہ مناسب لائٹ کے ساتھ ہیرو اور ہیروئین کے جسم کو اس حد تک فلمایا جائے کہ سین سنسر کے کٹ سے محفوظ رہے۔
گو کہ بھارتی سنیما میں خواتین نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔مگر سفر ابھی بھی جاری ہے۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ابھی بھی مرد وں کو خواتین کے مقابلے معاوضہ زیادہ ملتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس صنفی امتیاز کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے۔کیونکہ وجود زن سے ہی ہے بالی ووڈ میں رنگ۔۔۔اگر یہ رنگ پھیکا پڑا، تو بالی ووڈ بھی پھیکا پڑ جائیگا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔