کووِڈ کے بعد بڑھتی عدم مساوات سے لڑنے کے لیے حکومتیں کچھ بھی نہیں کر رہیں
سن 2020 اور 2022 کے درمیان عدم مساوات سے نمٹنے والے ممالک کی فہرست میں ناروے اور جرمنی کی کارکردگی سب سے بہتر رہی ہے۔ لیکن کم وسائل والے غریب ممالک کے لیے یہ بہت ہی مشکل وقت رہا۔
غیر منفعت بخش ادارے آکسفیم اور ڈیویلپمنٹ فنانس انٹرنیشنل' کی 11 اکتوبر منگل کی روز جاری ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک کورونا وائرس کی وبا کے سبب سماج میں بڑھنے والے عدم مساوات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس رپورٹ کو عدم مساوات کم کرنے کے لیے 2022 کا عزم کہا گیا ہے، جس میں سن 2020 اور 2022 کے درمیان عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے تین اہم ستونوں پر ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
یہ تین کلیدی ستون سماجی بہود پر خرچ کی جانے والی رقم، ٹیکس اور مزدوروں سے متعلق پالیسیوں پر مبنی ہیں۔ ان سے محققین کو یہ معلوم پڑتا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے معاملے میں مختلف ممالک کس طرح سے کام کرتے ہیں۔
محققین نے رپورٹ تیار کرنے کے لیے دنیا کے 161 ممالک کا جائزہ لیا اور یہ پتہ کرنے کی کوشش کی کہ کم اور درمیانی کم آمدن والے ممالک میں سے نصف نے تو وبائی امراض کے دوران صحت کے اخراجات میں ہی کمی کر دی، جب کہ باقی نصف ممالک نے سماجی تحفظ کے لیے اپنے اخراجات کم کر دیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ ممالک نے مالیاتی دباؤ کے باوجود امیر لوگوں پر ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جب عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مندوبین منگل کے روز ہی واشنگٹن میں اپنے سالانہ اجلاسوں کے لیے جمع ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ناروے اور جرمنی سرفہرست
اس حوالے سے سب سے بہتر کارکردگی کرنے والا ملک ناروے ہے، جس کا اندازہ سماجی تحفظ، ٹیکس اور مزدوری سے متعلق پالیسیوں پر ان کی مجموعی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ دوسرے نمبر پرجرمنی کا نام آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا، بیلجیم اور کینیڈا کا نمبر اس کے بعد ہے۔
اس فہرست میں شامل دس سرفہرست ممالک وہ ہیں، جن کا تعلق 'آرگنائزیشن فار اکنومک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ' (او سی ای ڈی) سے ہے۔ یہ ایک ایسی ایجنسی ہے، جو دنیا کی اعلیٰ معیشتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ دوسری جانب سب سے خراب کارکردگی والے تمام ممالک کم آمدن والے ہیں، جن میں نائیجیریا اور جنوبی سوڈان سر فہرست ہیں۔
جنوبی کوریا اور سینیگال کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے عوامی خدمات کے لیے اخراجات کو بہتر بنا کر اور سماجی تحفظات پر زیادہ خرچ کر کے عدم مساوات سے لڑنے کے لیے نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ کم وسائل کے ساتھ ترقی پذیر معیشتوں پر عالمی وبا کا سب سے زیادہ اثر جھیلنا پڑا، کیونکہ معاشی بحالی میں مدد کے لیے وہ زیادہ خرچ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ دہائیوں میں پہلی بار سن 2020 میں عالمی غربت کو سب سے بڑا دھچکا لگا۔
عوامی اخراجات میں کمی پر تنقید
آکسفیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرضوں اور بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے کفایت شعاری کے لیے نئے اقدامات پر جو اصرار کیا، اس کی وجہ سے بھی غریب ممالک میں معاشی عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہوا۔
ایف ڈی آئی کے ڈائریکٹر میتھیو مارٹن کا کہنا ہے، ''اس حوالے سے تباہ کن طور بحث اس جانب منتقل ہو گئی کہ کووڈ کی وجہ سے جو معاشی بحران آیا، ہم اس سے کس طرح نمٹیں، آخر ہم بڑی بے رحمی سے عوامی اخراجات میں کس طرح کٹوتی کے ذریعے قرض کو کم کریں اور ادائیگیوں کو منجمد کر دیں۔''
مارٹن کا مزید کہنا تھا: ''عدم مساوات تو ایک پالیسی کا انتخاب ہے، حکومتوں کو چاہیے کہ وہ امیر ترین لوگوں کو اولیت بخشنا اور عام لوگوں کو سب سے آخر میں رکھنا چھوڑ دیں۔''
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔