لڑکیوں کو مضبوط بنائیں
کیونکہ چاہے کوئی مرد یا عورت دونوں کا ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے۔ یہ کسی صنف یا کسی خاندان کی میراث نہیں ہے۔
تمام کزنز چھت پر باربی کیو کا پلان بنائے بیٹھی تھیں۔ اب مسلۂ یہ تھا کہ اسٹور سے باربی کیو کی انگیٹھی کون نکالے۔ سب ایک دوسرے پر یہ کام ڈال رہی تھیں۔ کوئی بھی راضی نا ہوا تو بادل ناخواستہ ارم اور عالیہ اس مہم کو سر کرنے چلیں۔ لیکن پانچ منٹ بعد ہی پورے گھر کے درودیوار ان دونوں کی چیخوں سے لرزنے لگے۔ گھر کے تمام افراد بوکھلا کر دوڑے آئے کہ بچیوں کے ساتھ شاید کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ لیکن دیکھا تو دونوں لڑکیاں اسٹور کے دروازے سے باہر صحیح سلامت کھڑی چلاٌ رہی تھیں۔ دریافت کرنے پر علم ہوا کہ انھوں نے جیسے ہی انگھیٹی کھینچی اس کے پیچھے بیٹھی ایک چھپکلی کے آرام میں خلل پڑا اور بیچاری حضرت انسان کو موجود پاکر اپنی جان بچانے کی فکر میں بھاگی اور دوسری جانب چھپکلی سے ہزار گنا بڑی مخلوق یعنی دونوں لڑکیاں اس ننھی سی جان کو دیکھ کر خوف سے چلاّنے لگیں۔
اسی طرح ایک واقعہ میرے بیٹے نے بتایا کہ کالج میں لیکچرار کلاس میں داخل ہوئیں، روسٹم پر سامان رکھا اور ایک دم چلاّتی ہوئی کلاس سے باہر بھاگ گئیں۔ پتا چلا کہ روسٹم کی سائیڈ پر ایک چھپکلی موجود تھی۔ لیکچرار کی عمر سے دو گنا چھوٹے لڑکے اپنی ٹیچر کی مدد کو آئے اور چھپکلی کو مارا تو کلاس شروع ہوسکی۔ دونوں واقعات میں خواتین کو چلانے کے بعد کسی شرمندگی یا طعنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ خواتین لال بیگ، چھپکلی یا چوہے کو دیکھ کر اسی طرح چیخیں مارتی ہیں لیکن اگر کوئی لڑکا کسی لال بیگ یا چوہے کو دیکھ کر ڈر جائے تو سب نہ صرف اس کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ اسے طعنے بھی دیتے ہیں کہ 'تم کیسے مرد ہو جو ان چھوٹے چھوٹے حشرات الارض سے ڈر رہے ہو۔ ڈرپوک انسان، مرد بنو کیا خواتین کی طرح چلاّ رہے ہو۔‘
مطلب یہ کہ اگر خواتین کسی بےضرر چیز سے ڈر رہی ہیں تو وہ ان کی فطرت کا حصہ ہے لیکن مردوں کے لیے ایسی فطرت کا مظاہرہ کرنا گالی ہے۔ بے ضرر حشرات سے ڈرنے پر اگر ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو پھر یہ طعنہ دونوں اصناف کے لیے ہونا چاہیے۔ لیکن نا جانے کس نے ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا ہے کہ خواتین کا ڈرنا تو ان کی فطرت ہے۔ اگر یہ خواتین کی فطرت ہے تو پھر گاؤں دیہات کی خواتین اس فطرت کے زیر اثر کیوں نہیں ہوتیں۔
سچ پوچھیں تو مجھے خود ایسی چیزوں سے کبھی ڈر نہیں لگا۔ اور ہمیشہ خواتین کو چلاتے دیکھ کر سخت کوفت محسوس ہوتی ہے۔ زندگی میں بہت سے مشکل ادوار آئے جن کا اکیلے میں مقابلہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری تربیت میں یہ بات شامل ہی نہیں تھی کہ کسی مشکل کے پڑنے پر مدد کے لیے کسی کو بلایا جائے۔ ہمیشہ اپنی مدد آپ کے اصول پر کاربند رہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی کوئی بڑا فیصلہ لینے کا وقت آیا تو کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ کیوں کہ جب کوئی شخص اپنی مدد آپ کے اصول پر چلتا ہے تو وہ اپنے فیصلوں کے انجام کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے۔
ہم سب کے اردگرد ایسی بہت سی خواتین کی مثالیں موجود ہیں جو اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہیں۔ اپنے بچوں کو اکیلے پال رہی ہوتی ہیں۔ نوکری اور گھر کے ساتھ ساتھ خاندان کی ذمہ داریاں بھی ان کے سر پہ ہوتی ہیں۔ معاشرہ ان کو ایک مضبوط خاتون کا ٹائٹل دیتا ہے۔ اکثر ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ اتنی بہادری سے تمام مشکلات کا سامنا کیسے کر رہی ہیں؟ اصل میں ان خواتین کو وقت نے مضبوط بنایا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس سوائے بہادر بننے کے، کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر شخص اس بہادری کا مظاہرہ کر سکے۔ حتیٰ کہ اکثر اوقات مرد حضرات بھی زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
لہذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی وہ بچے کی شخصیت کی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھیں۔ ایک مضبوط شخصیت کا حامل انسان ہی معاشرے کا ایک فعال رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر کیسے کرنی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اگر اپنے بچے کو چڑیا گھر لے کر گئے ہیں اور وہاں بچہ شیر کی دھاڑ سے یا دوسرے جانوروں سے خوف زدہ ہوگیا ہے۔ تو اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس کا مذاق اڑا کر لطف اٹھائیں۔ اس کے خوف زدہ تاثرات کی ویڈیو بنا کر سب کو دکھائیں۔ یا پھر اسے تسلّی سے وہیں بٹھا کر سمجھائیں اور وقت دیں، پھر اسے اپنے اردگرد کا جائزہ لینے دیں تاکہ وہ اپنے خوف پر قابو پاسکے۔
اس طرح اگر بچہ کسی ذہنی الجھن کا شکار ہے تو عموماً والدین یا تو بچے کے احساسات کو مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں یا پھر انھیں خوش کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ والدین بچے کو اپنے احساسات کا سامنا کرنے دیں۔ ساتھ ہی اس کو یہ بھی بتائیں کہ صرف ذہنی الجھن پالنے سے مسائل حل نہیں پوتے۔ بلکہ اپنے احساسات پر قابو پاکر درست وقت پر درست فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ بچے کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ کس وقت دوسروں سے مدد طلب کرنی ہے۔ اور کس وقت دوسروں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا ہے۔
بچپن سےہی ایسی تربیت پانے والے بچے جب اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو نا صرف اپنے ذہنی دباؤ کو قابو میں رکھنا جانتے ہیں بلکہ انہیں درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ اور اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لیے ہی مضبوط شخصیت کی تعمیر کی بنیاد بچپن میں ہی پڑ جانی چاہیے۔ تاکہ وہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کر سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔