جرمنی مزید پندرہ سو مہاجرین کو قبول کرے گا
یونان میں پھنسے مزید پندرہ سو مہاجرین کو جرمنی لانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے علاوہ چانسلر انگیلا میرکل تقریبا ڈیڑھ سو مہاجر بچوں کو بھی ملک میں لانا اور انہیں تعلیم کی سہولت فراہم کرنا چاہتی ہیں۔
جرمنی کی طرف سے پندرہ سو مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ انسانی ہمدردری اور یورپی یونین کی رکن ریاست یونان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی طرف سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ملک میں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جماعت ملک میں غیر ملکی مہاجرین اور مسلمانوں کی مخالف ہے۔
یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا کیمپ میں آگ لگنے کے بعد وہاں موجود بارہ ہزار سے زائد مہاجرین بے گھر ہو چکے ہیں اور انہیں کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی ابھی تک نہ تو مناسب خوراک اور نہ ہی صفائی کی مناسب سہولیات تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے جرمن حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ موریا کیمپ کے اُن پندرہ سو مہاجرین کو ملک میں لایا جائے گا، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں پہلے ہی منظور کی جا چکی ہیں لیکن وہ ابھی تک موریا کیمپ میں تھے۔
جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ یہ تجویز پارلیمان میں پیش کی جائے گی اور منگل کی شام اس حوالے سے اراکین پارلیمان بحث بھی کریں گے۔ یورپی یونین میں مہاجرین سب سے پہلے اٹلی اور یونان پہنچتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یونانی جزائر پر اب بھی تیس ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان، افریقہ، پاکستان اور شام جیسے ممالک سے ہے۔
مہاجرین کے حوالے سے نہ صرف یورپ بلکہ جرمنی بھی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ پانچ برس پہلے چانسلر انگیلا میرکل نے تقریبا بارہ لاکھ مہاجرین کے لیے ملکی دروازے کھول دیے تھے، جس کے بعد ملک میں ان کی مخالفت میں احتجاجی ریلیاں نکلنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ ہوا کہ مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی جرمن پارلیمان میں پہنچی اور اب یہ ملک کی اہم اپوزیشن جماعت بن چکی ہے۔
جرمن حکومت ان پندرہ سو مہاجرین کے علاوہ ایک سو سے ڈیڑھ سو مہاجرین بچوں کو بھی ملک میں لانا چاہتی ہے۔ جرمنی میں کروائے جانے والے حالیہ جائزوں کے مطابق زیادہ تر جرمن ایسے مہاجرین کو جرمنی لانے کے حق میں ہیں، جن کو واقعی حفاظت کی ضرورت ہے اور جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔