نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟

جرمنی میں پناہ کے متلاشیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور بے قاعدہ ہجرت کے بارے میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جرمن لیبر مارکیٹ ملک میں ہنر مند کارکنوں کی کمی نئے آنے والے مہاجرین سے پوری کرنا چاہتی ہے۔

نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟
نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟
user

Dw

پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے جرمنی میں رہائش کی سہولیات اور پناہ کے متلاشیوں کی ملک بدری جیسے موضوعات ان دنوں ہر سطح پر زیر بحث ہیں۔ ساتھ ہی تارکین وطن کے انضمام پر پھر سے زور بڑھ رہا ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر دراصل یہ ہے کہ برلن حکومت کسی طرح' غیرقانونی ہجرت‘ کو روکنا چاہتی ہے۔غیر قانونی مہاجرت اور پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں اضافہ، جہاں جرمن معاشرے اور یہاں کے سیاستدان طبقے کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، وہاں جرمن صنعتیں ہنرمند کارکنوں کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی بڑی بڑی صنعتیں اور آجرین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی کارکنوں کے لیے امیگیرشن قوانین میں نرمی لائے۔ بہت سے ماہرین بیرون ملک سے جرمنی آنے والے پناہ کےمتلاشیوں میں ہنر مند کارکنوں کی تلاش کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ جرمن پہنچنے والے پناہ کے متلاشیوں کی صلاحیتوں اور ہنر مندی کو بروئے کار لایا جائے۔

اس سلسلے میں حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن میں ایک 'جاب فیئر‘ یا 'روزگار نمائش‘ کا انعقاد ہوا۔ اس ایونٹ کا مقصد پناہ کے متلاشیوں، تارکین وطن اور آجروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں لانا تھا۔


فیڈرل ایسوسی ایشن آف جرمن ایمپلائرز کے سربراہ رائنر ڈولگر نے تاہم اس بارے میں جرمن پریس ایجنسی ڈی پی اے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''ہمیں کام کرنے والوں اور ہنر مند تارکین وطن کی امیگریشن اور بے ضابطہ مہاجرت کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا اس بارے میں زور دے کر کہنا تھا،''بے قاعدہ ہجرت کے بارے میں جرمن عوام اور ہم تمام آجرین کی توقع یہ ہے کہ ان کے خلاف قومی اور یورپی سطح پر فیصلہ کُن کارروائی کی جائے۔‘‘

جرمنی میں مہاجرین کی تعداد میں ایک بار پھر واضح طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ نقل مکانی اور پناہ گزینوں کے وفاقی جرمن دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال جنوری سے اگست تک تقریباً دو لاکھ پناہ کی درخواستیں درج کرائی گئیں ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ تمام سال کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔