نوجوانوں اور پولیس میں جھڑپیں، مسئلہ کیا ہے؟
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کے بعد فرینکفرٹ میں بھی نوجوان گروپوں نے پولیس پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کے پسِ پردہ کس کا ہاتھ ہے؟ اس سوال پر جرمن سیاسی اور سماجی حلقے غور کرنے میں مصروف ہیں۔
جرمن شہروں اشٹٹ گارٹ اور فرینکفرٹ میں نوجوان افراد پر مشتمل گروپوں کے پولیس پر حملوں نے ملک کے سیاسی اور حکومتی حلقوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ان دونوں شہروں میں خاص طور پر پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ سیکڑوں مشتعل نوجوانوں نے پولیس پر حملوں کے ساتھ ساتھ دوکانوں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان والے مختلف اسٹورز کو لوٹا اور بڑے بڑے کوڑا دانوں کو سڑکوں پر الٹ کر گندگی بکھیرنے کے ساتھ ساتھ رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
ایسی ویڈیوز بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر کھڑے لوگ اس وقت تالیاں بجا رہے تھے جب مشتعل نوجوان گروپس پولیس پر بوتلیں پھینک رہے تھے۔ سماجی اور حقوق کے کارکنوں نے تالیاں بجانے والوں کی حرکت پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پہلے اشٹٹ گارٹ اور پھر فرینکفرٹ میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر جرمنی میں شدید بحث شروع ہو چکی ہے۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والا لاک ڈاؤن اور مختلف پابندیاں نوجوانوں کو مشتعل کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
اس بحث میں ایک اور نکتے پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ ان دونوں شہروں میں مظاہروں میں شریک نوجوان افراد بظاہر تارکینِ وطن کمیونٹیز سے تعلق رکھتے تھے اور ان کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ایسا بھی سوچا جا رہا ہے کہ فرانس کی طرح جرمنی کو بھی تارکین وطن خاندانوں کے افراد کے مظاہروں کا سامنا ہے۔ فوری طور پر ان سوالات کے جواب سامنے نہیں آئے ہیں۔
جرمنی کے ایک معروف سیاسی مفکر اشٹیفان لُفٹ کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا نوجوانوں میں اشتعال انگیز جذبات بھڑکانے میں عمل انگیز ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ وبا ان تشدد آمیز واقعات کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقع ادارہ برائے مجرمانہ غفلت اور جرائم (IDCP) کے سربراہ ڈِرک بائیر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے مایوسی کی شدت میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن ایسے پرتشدد حالات کے پس منظر میں اور بہت کچھ عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
فرینکفرٹ اور اشٹٹ گارٹ میں پولیس پرکیے جانے والے حملے ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔
سوئس ادارے آئی ڈی سی پی کے سربراہ اور جرائم پر نگاہ رکھنے والے ڈِرک بائیر کا کہنا ہے کہ مخصوص کیفیت میں نوجوانوں کا ایک حد کو عبور کرنا تشدد جیسے حالات کو جنم دیتا ہے اور خاص طور پر جرم سرزد کرنے والے ان حالات کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ بائیر کے مطابق جب ایک بڑی تعداد میں ایسے افراد اکھٹے ہو جائیں تو پھر مشکل صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،جیسا کہ فرینکفرٹ میں ہوا۔
کرمنالوجسٹ ڈِرک بائیر کے خیالات کی تصدیق پولیس کے اُس بیان سے بھی ہوتی ہے، جس میں بتایا گیا کہ فرینکفرٹ میں گرفتار کیے گئے انتالیس افراد کا مجرمانہ ریکارڈ پولیس کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ ان کو منشیات فروشی کے الزامات کا سامنا رہ چکا ہے۔
اشٹٹ گارٹ اور فرینکفرٹ میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد میں سے بیشتر کا تعلق تارکین وطن خاندانوں سے بتایا گیا ہے۔ یہ معاملہ بھی جرمن شہریوں کے لیے پریشان کن ہے۔ اس مناسبت سے مختلف سوالات گردش میں ہیں۔ ان میں یہ مظاہرین تارکین وطن خاندانوں کی کون سی نسل ہے یا یہ غیر ملکی ورکرز ہیں یا غیر قانونی امیگرینٹس یا پھر سیاسی پناہ کے متلاشی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ پرتشدد واقعات اور مائیگریشن میں کیا ربط ہے۔
انہی سوالات کی گونج تارکین وطن مخالف عوامیت پسند سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈویچ لینڈ(اے ایف ڈی) کے بیانات میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس جماعت کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اشٹٹ گارٹ اور فرینکفرٹ جیسی صورت حال بہت جلد سارے ملک میں ظاہر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
چانسلر میرکل اور اے ایف ڈی قانون کے نفاذ اور تارکین وطن کے انضمام کی پالیسی میں ناکامی کو علیحدہ علیحدہ دیکھتے ہیں۔ سیاسی مفکر اشٹیفان لُفٹ کا بھی خیال ہے کہ عدم انضمام کا ان واقعات کے پس منظر میں ہونا ممکن ہے۔ لُفٹ کے مطابق ان کمیونٹیز کو منقسم شناخت کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے اور ایک نئے کلچر میں پوری طرح ضم نہ ہونے کی صورت میں تشدد کے جذبات ابھر سکتے ہیں۔
دوسری طرف ڈِرک بائیر اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والی کمیونیٹیز کے افراد کا تشدد میں ملوث ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ بائیر کہتے ہیں کہ تارکین وطن خاندانوں کے افراد کو بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا سامنا ہونے سے وہ اپنا مستقبل تاریک سمجھتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جو تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔
اشٹٹ گارٹ اور فرینکفرٹ کے مظاہروں کو فرانس کے بڑے شہروں کے مضافاتی علاقوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی طرح بھی دیکھا جا رہا ہے۔ فرانسیسی شہروں کے مضافات میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ ان بستیوں کے سماجی حالات بھی انتہائی پیچیدہ، مشکل اور کسی حد تک پریشان کن ہیں۔
ہر دوسرے سال ان فرانسیسی مضافاتی علاقوں میں شدید مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تقابل میں ایک اور بات مشترک ہے اور اس دوران پولیس سے نفرت بھی ہے۔ ڈرک بائیر کا کہنا ہے کہ جرمن پولیس کو نسلی تعصب برتنے کے الزام کا بھی سامنا ہے اور جب تک وہ اس الزام سے خود کو نجات نہیں دلاتی تب تک یہ الزام برقرار رہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔