جرمن فوجی انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا

جرمن فوجی فرانکو اے کو خود کو شامی مہاجر ظاہر کر کے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا مرتکب پایا گیا۔ اس کیس نے جرمن فوج اور امیگریشن حکام کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

جرمن فوجی انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا
جرمن فوجی انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا
user

Dw

انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کا یہ مقدمہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مقدمہ رہا تھا۔ آخر کار فرینکفرٹ میں جمعے کے روز جرمن فوج کے اہلکار فرانکو اے* کو 'ریاست کو خطرے میں ڈالنے والے سنگین پرتشدد جرم‘ کی تیاری کا مرتکب پایا گیا۔

فرانکو کو دھوکہ دہی اور غیر قانونی طور پر جنگی ہتھیار رکھنے کا مرتکب پائے جانے کے بعد ساڑھے پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان ہتھیاروں میں دو رائفلیں بھی شامل تھیں۔ فرانکو نے تاہم یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ ہتھیار کہاں سے حاصل کیے تھے اور اب وہ کہاں ہیں۔


اس مقدمے میں فیصلے کے وقت فرانکو کی داڑھی اور بال بڑھے ہوئے تھے، اور سرخ شرٹ میں ملبوس وہ پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔ ہتھکڑیاں کھولے جانے کے بعد وہ اپنے دفاعی وکلاء سے گپ شپ کرتا بھی دکھائی دیا۔

جج کرسٹوفر کولر نے فیصلہ پڑھ پر سنانا شروع کیا تو بھی فرانکو نے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ تاہم بعد میں جب جج نے اس کے نسل پرستانہ نیشنل سوشلسٹ نظریے کے بارے میں پیش کیے گئے کئی ثبوتوں میں سے کچھ کو سننا شروع کیا تو فرانکو بڑبڑاتا دکھائی دیا۔


جج نے فیصلے میں کہا، ''مدعا علیہ ایک قوم پرست، نسل پرست اور سامیت دشمن سوچ رکھتا ہے۔‘‘ عدالت میں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ فرانکو اے نے 'جرمن نسل‘ کے منظم خاتمے سے متعلق سازشی نظریات کی حمایت بھی کی تھی اور ہٹلر کی تعریف بھی۔

عدالتی کارروائی کے دوران ایک موقع پر جج نے فرانکو کا ایک وائس میل نوٹ بھی پڑھا جس میں وہ ان تارکین وطن افراد کے بارے میں 'کچھ کرنے‘ کی خواہش کا ذکر کر رہا تھا، جسے اس نے سڑکوں پر 'جرمن لڑکیوں سے بات‘ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔


عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فرانکو کے منصوبے اس کے نظریات کے باعث تھے اگرچہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ اس کے منصوبے کتنے ٹھوس تھے۔ بعد ازاں عدالت کی خاتون ترجمان نے وضاحت کی کہ عدالت کو فرانکو اے کو مجرم قرار دینے کے لیے کسی عملی منصوبے سے تعلق کی تلاش کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ اس بنیاد پر فیصلہ کرنا ہی کافی تھا کہ وہ ایسے منصوبوں کا ارادہ رکھتا تھا۔

تاہم عدالت نے کہا کہ یہ بات واضح تھی کہ فرانکو ایسے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں پر حملہ کر کے 'پیغام دینا‘ چاہتا تھا، جنہیں وہ مہاجر دوست سمجھتا تھا۔ اس نے غیر قانونی طور پر نیم خودکار رائفلیں حاصل کیں، فائرنگ کی مشق کی، ممکنہ اہداف کی فہرستیں بنائیں اور یہ تحقیق بھی کی کہ وہ اہداف کہاں ہو سکتے ہیں۔


وفاقی دفتر استغاثہ کی وکیل کارین وائنگاسٹ نے اس فیصلے کو تفتیشی حکام کے لیے 'بڑی کامیابی‘ قرار دیا، حالانکہ عدالت نے ان کی تجویز کردہ مدت سے کم سزائے قید سنائی۔ کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں مطمئن ہوں اور میں اسے جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی، نسل پرستی اور یہود دشمنی کے خلاف جنگ میں ایک اہم کامیابی کے طور پر دیکھتی ہوں۔‘‘

تاہم وکیل دفاع مورِٹز شمٹ فریکے نے اس مقدمے کو 'انتہائی سیاسی‘ قرار دیا اور فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''میں اب بھی وہ واضح ثبوت تلاش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں کہ میرا مؤکل کوئی حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔‘‘ بعد ازاں انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا مؤکل اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔ تاہم وکیل دفاع نے بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ فرانکو نے اسلحہ کہاں سے حاصل کیا تھا، لیکن یہ ضرور کہا کہ فرانکو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اب اسلحہ کہاں ہے۔


ایک طویل مقدمہ

جمعے کے روز فرینکفرٹ کی عدالت میں اختتامی بیانات کے دوران فرانکو کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ اسے صرف ان جرئم کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے جن کا اس نے اعتراف کیا ہے، یعنی دھوکے سے پناہ گزین کی حیثیت سے ریاستی فوائد حاصل کرنا اور غیر قانونی ہتھیار رکھنا۔ انہوں نے کہا، ''عجیب و غریب واقعات کا مجموعہ کسی کو دہشت گرد نہیں بناتا۔‘‘

فرانکو اے نے اپنے اختتامی بیان میں عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسے ہتھیار جمع کرنے پر افسوس ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے تین بچے ہیں، جن کی اسے دیکھ بھال کرنا ہے اور اب اس کی واحد توجہ اچھا 'خاوند اور والد‘ بننے پر ہے۔ فرانکو نے ایک بار پھر کسی قسم کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی تردید کی۔


لیکن فرانکو کے ان بیانات پر عدالتی کارروائی کے دوران دیے گئے ایک بیان کا تاثر غالب رہا، جس میں اس نے ہولوکاسٹ کے ایک معروف جرمن منکر کے نظریات کی تائید کی تھی اور یہ دلیل دینے کی کوشش کی تھی کہ یہودی جرمن کیوں نہیں ہو سکتے۔ مقدمے کے دوران فرانکو کا ایک اور وائس نوٹ بھی سنایا گیا، جس میں فرانکو نے سیاسی مخالفین کو 'سؤر‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا، ''میں جانتا ہوں تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو، لیکن اس سے پہلے میں تمہیں قتل کر دوں گا۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادیوں نے جرمنی کو 'نامرد یا خصی‘ کر دیا تھا۔

فرانکو کے وکلاء نے ہتھیار جمع کرنے کا جواز یہ بتایا کہ وہ ان کی مدد سے اسلام پسندوں کے ساتھ کسی ممکنہ خانہ جنگی کے دوران اپنا دفاع کرنا چاہتا تھا۔


امیگریشن نظام پر سوالیہ نشان

اس مقدمے کے اختتام سے دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن انتہا پسندی کی تاریخ کی ایک عجیب و غریب کہانی بھی انجام کو پہنچی۔ فرانکو اے کے معاملے میں جرمن امیگریشن نظام کے بارے میں سوالات پیدا ہوائے کہ سن 2016 میں پناہ گزینوں کی آمد کے عروج کے وقت فرانکو اے نے عربی زبان سے ناواقفیت اور کوئی شناختی دستاویز نہ ہونے کے باوجود کیسے خود کو بطور شامی مہاجر رجسٹر کرا لیا تھا۔

فرانکو نے عدالت میں گواہی دی کہ اس نے اپنی داڑھی اور چہرہ رنگ کر کے، میلے کپڑے پہن کر اور یہ دعویٰ کر کے کہ وہ فرانسیسی زبان اچھی بول سکتا ہے، امیگریشن حکام کو دھوکہ دیا تھا۔


اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے جرمن امیگریشن نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کے لیے یہ کام کیا اور شامی پناہ گزین کے طور پر کاغذات حاصل کرنے کے بعد ملنے والے سماجی فوائد ریاست کو واپس لوٹا دیے تھے۔ تاہم اس نے اس الزام سے انکار کیا کہ وہ شامی پناہ گزین کے طور پر حاصل کردہ شناخت کو کسی حملے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وکیل استغاثہ نے بھی کہا کہ اگرچہ انہیں شبہ ہے کہ فرانکو نے اسی نیت سے یہ شناخت حاصل کی لیکن وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔

جرمن فوج میں نیو نازی

فرانکو اے مقدمے کی سماعت کے دوران زیر حراست نہیں تھا۔ رواں برس فروری میں ایک ٹرین اسٹیشن پر تلاشی کے دوران اسے دوبارہ حراست میں لینے کا حکم اس وقت دیا گیا جب اس کے پاس نازی دور کے تمغوں اور سواستیکا علامت سے بھرا ایک ہینڈ بیگ برآمد ہوا تھا۔ یہ سامان وہ فرانسیسی شہر اسٹراس برگ کے دورے کے بعد واپس لا رہا تھا اور پولیس نے بتایا کہ اس نے گرفتاری کے خلاف مزاحمت بھی کی تھی۔


بعد میں پولیس نے اس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی تو وہاں انہیں کئی تیز دھار ہتھیاروں کے علاوہ نازی دور کی علامات، 21 موبائل فون اور ایک جعلی ویکسین پاس بھی ملا تھا۔

فرانکو کا معاملہ سامنے آنے کے بعد جرمن فوج میں انتہائی دائیں بازو کے نیٹ ورک تلاش کرنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔ فرانکو نے بھی بتایا تھا کہ وہ نام نہاد 'ہانیبل نیٹ ورک‘ سے رابطے میں تھا جو ملک بھر میں فوجیوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے بعد جرمن فوج کو انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے مزید اسکینڈلز کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔