بھارت میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا مستقبل معلق
بھارت نے جنگ زدہ ملک افغانستان پر طالبان کے قبضہ کرلینے کے بعد اس سے سفارتی تعلقات معطل کرلیے ہیں۔ اس فیصلے سے بھارتی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہزاروں افغان طلبہ کا مستقبل معلق ہوکر رہ گیا ہے۔
نئی دہلی میں افغان سفارت خانے کی طرف سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق بھارتی یونیورسٹیوں میں 13000 سے زائد افغان طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اگست 2021 میں جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضہ کرلینے سے قبل تقریباً 2000 طلبہ اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
ان کی وطن واپسی کی وجہ کووڈ۔19کی وبا پر قابو پانے کے اقدامات کے تحت بھارتی یونیورسٹیوں کا بند کردیا جانا تھا۔ یہ یونیورسٹیاں اپنے لکچر اور سیمینار بالعموم آن لائن منعقد کرارہی ہیں۔
بھارت میں پبلک ایڈمنسٹریشن اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے والے کابل کے رہائشی عیسیٰ سعادت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، "اب یونیورسٹیاں دوباہ کھل گئی ہیں اور ہمیں اپنے کلاس میں ہونا چاہئے لیکن ہمیں ویزا نہیں مل رہا۔"
طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرلینے کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنی سفارتی خدمات بند کردیں جبکہ فضائی سفر اور بینکوں کے ذریعہ ادائیگی کو معطل کردیا۔
عیسیٰ بھارت جانے کے لیے گزشتہ پانچ ماہ سے ویزا حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا،"پہلے میں نے کابل میں آن لائن اپلائی کیا۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں ویزا کے لیے اپلائی کرنے کے خاطر سفر کرکے تہران میں بھارتی سفارت خانے گیا۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ صرف ایسے افغان شہریوں کو ہی ویزا مل سکتا ہے جو مریض ہیں اور علاج کے لیے بھارت جانا چاہتے ہیں۔"
ایران اور پاکستان کے راستے بھی اجازت نہیں
صرف عیسیٰ ہی واحد ایسے طالب علم نہیں ہیں جو ایران کے راستے بھارت جانا چاہتے ہیں۔ شکیل رازی بھارت میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور انہوں نے وہاں جانے کے لیے ویزا حاصل کرنے کے خاطر ایران اور پاکستان دونوں ملکوں کا سفر کیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے انتہائی مایوسی بھرے لہجے میں کہا،"میں نے اپنی تعلیم پر کافی بڑی رقم لگادی ہے اور اب مجھے اپنے ڈاکٹورل تھیسس کے سلسلے میں انٹرویو دینا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ برباد ہوتا جارہا ہے۔ میں اپنی ٹیوشن فیس بھی دوسری جگہ منتقل نہیں کرسکتا۔"
بہت سے نوجوان افغان شہری سمجھتے ہیں کہ بحران کی اس گھڑی میں بھارت نے ان سے منہ پھیر لیا ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھارت نے نوجوان افغانوں کے لیے خود کو ایک اہم تعلیمی منزل کے طور پر قائم کیا تھا۔
سن 2001 میں پہلی طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے بھارت افغانستان کا سب سے بڑا علاقائی عطیہ دہندہ رہا ہے۔ بھارت نے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو کے لیے تقریباً تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اسے افغانستان میں اپنے دیرینہ حریف پاکستان کے اثرات کو کم کرنے کی نئی دہلی کی کوشش کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں نہ صرف سڑکیں،اسکول، ڈیم اور ہسپتالیں تعمیر کیں بلکہ تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبے میں بھی اہم رول ادا کیا۔
سن 2005 اور 2011 کے درمیان بھارت نے 500افغان طلبہ کو سالانہ وظیفے دیے جبکہ سن 2011 سے سن 2021 کے درمیان یہ تعداد بڑھ کر 1000 سالانہ ہوگئی۔ البتہ بہت سے افغان طلبہ بھارت میں تعلیم کا خرچ خود برداشت کرتے ہیں۔ نئی دہلی میں افغان سفارت خانے کے مطابق گزشتہ 16برس کے دوران 60000 سے زائد افغانوں نے بھارت میں اپنی تعلیم مکمل کی۔
حل کی تلاش
نئی دہلی میں افغان سفارت خانے کے ترجمان عبدالحق آزاد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"ہم بھارتی حکومت اور بھارتی یونیورسٹیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ کوئی حل تلاش کیا جاسکے۔"
نئی دہلی کا افغان سفارت خانہ اب بھی سابقہ اشرف غنی حکومت کے ایک رکن کی سربراہی میں کام کررہا ہے۔ جبکہ بھارت نے کابل کی طالبان حکومت کو اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستا ن کی وزارت تعلیم کے ترجمان مولوی احمد تقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں افغان طلبہ کو درپیش مسائل اور پریشانیوں کے لیے طالبان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا نہیں جاناچاہئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا، "اسلامی امارت افغانستان نے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا ہے۔ اس کے لیے دوسرے ممالک ذمہ دار ہیں۔"
دریں اثناافغان وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ اس مسئلے کا جلد از جلد حل تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ (غضنفر عدیلی) (اصل مضمون دری زبان میں لکھا گیا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔