لوور میوزیم، سابق ڈائریکٹر پرنوادرات کی اصلیت چھپانےکا الزام
پیرس کے لوورمیوزیم کے ایک سابق ڈائریکٹر پر الزام ہے کہ وہ قدیم مصری نوادرات کی اصل حیثیت چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شائقین اس میں رکھے فن پارے دیکھنے فرانس کا رخ کرتے ہیں۔
فرانس کے عدالتی ذرائع نے بتایا کہ ملک کے مشہور عجائب گھر لوور میں پہنچائے جانے والے قدیمی نوادرات کی اصل حیثیت چھپانے کا الزام سابق ڈائریکٹر ژاں لُک مارٹینیز پر عائد کیا گیا ہے۔
یہ قدیمی نوادرات مصر میں عرب اسپرنگ کے دوران ہونے والے مظاہروں میں لوٹے گئے تھے اور انہیں اسمگلروں نے لوور میوزیم پہنچایاتھا۔ وہ ان قدیمی اور قیمتی نوادرات کو فروخت کرنے کی کوشش میں تھے۔
ایسا خیال کیا گیا کہ اس سارے عمل میں سابق ڈائریکٹر ژاں لُک مارٹینیز نے ان قیمتی و تاریخی نوادرات کی اصلیت و حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔
قدیمی نوادرات بارے تفتیشی عمل
تفتیش کاروں نے مصر کے آثار قدیمہ کے نوادرات کی حقیقی حیثیت کو مخفی رکھنے کے حوالے سے ژاں لُک مارٹینیز سے پوچھ گچھ کی۔ اس پوچھ گچھ میں دو فرانسیسی ماہرین کو بھی تفتیش کاروں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تفتیشی عمل کے بعد فرانسیسی ماہرین پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا لیکن ژاں لُک مارٹینیز کو مصری آثار قدیمہ کے تاریخی نوادرات کی حیثیت چھپانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ابھی اس مناسبت سے عدالتی کارروائی کی تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔ ژاں لُک مارٹینیز سن 2013 سن 2021 تک لوور میوزیم کے ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے تھے۔ فرانسیسی تفتیش کاروں نے اپنی تحقیقات کا آغاز سن 2018 میں کیا تھا۔
قدیم مصری تہذیب کے ایک ماہر اور فرانسیسی محقق مارک گابولڈے نے بتایا کہ انہوں نے لوور کے ڈائریکٹر کو مصری نوادرات کے پسِ پردہ مشکوک سرگرمیوں سے مطلع ضرور کیا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔
الزامات اور نوادرات
فرانسیسی تفتیش کاروں نے ژاں لُک مارٹینیز پر فراڈ چھپانے کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ وہ ان نوادرات کی اصلیت کے جعلی سرٹیفیکیٹس کی مناسب چھان بین نہیں کر سکے تھے۔ انہیں اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ سابق ڈائریکٹر نے ملزمان کے جعلی سرٹیفیکیٹس کی حقیقت جاننے کا عمل آگے نہیں بڑھایا۔ ژاں لُک مارٹینیز اس وقت فرانسیسی وزارتِ خارجہ میں بین الاقوامی ثقافتی ورثے میں تعاون کے گشتی سفیر ہیں۔
وہ اپنا جواب صرف عدالت میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔ ان کے سامنے چار قدیمی نوادرات پیش کیے گئے تھے۔ ان میں مصری فرعون توتان خامون کا مجسمہ بھی شامل تھا۔ ان چاروں قیمتی تاریخی نوادرات کی مجموعی قیمت آٹھ ملین یورو تھی۔
ان قیمتی اشیاء کی فروخت میں مڈل مین کا کردار ایک جرمن لبنانی گیلری کے مالک رابن ڈیب نے ادا کیا۔ انہیں رواں برس جرمن شہر ہمبیرگ میں گرفتار کر کے فرانس کے حوالے کیا گیا تھا تا کہ ان سے مکمل چھان بین کی جا سکے۔
اس تفتیشی عمل سے فرانس کی آرٹ مارکیٹ میں سرگرمیاں کم ہو چکی ہیں۔ یہ مارکیٹ یورپ میں مشرقِ وسطیٰ کی تہذیب کے فن پاروں کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی تصور کی جاتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔